سورة التوبہ - آیت 46

وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَٰكِن كَرِهَ اللَّهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اگر وہ نکلنا چاہتے ، تو جہاد کے لئے پہلے سے اسباب تیار کرتے ، لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند نہ آیا ، سو اس نے انہیں سست کردیا اور انہیں حکم ہوا کہ بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو (ف ١) ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٩] منافقوں کی سچائی کا معیار :۔ اگر انہوں نے جہاد کی تیاری مکمل طور پر کرلی ہوتی تو پھر کوئی ایسا حادثہ پیش آ جاتا جس کی وجہ سے وہ فی الواقع جہاد پر جانے سے معذور ہوتے تو اس صورت میں تو ان کی سچائی پر اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ لیکن جس صورت میں انہیں کوئی ایسی فکر لاحق ہی نہ ہوتی ہو اور ان کا سارا دار و مدار صرف حیلوں بہانوں پر ہی موقوف ہو تو اس صورت میں انہیں سچا کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ اور حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی جہاد میں شمولیت اللہ کو پسند بھی نہیں جس سے اسلامی فوج کو ان سے کسی فائدہ کے بجائے نقصان کا خطرہ زیادہ ہو۔ چنانچہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ گھروں میں ہی بیٹھ رہنا ان کے نصیب ہوا۔