أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کا آباد رکھنا ، اس شخص کے برابر سمجھ لیا جو اللہ پر اور آخری دن پر ایمان لایا ، اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، اور خدا کے نزدیک برابر نہیں ، اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا ۔
[١٨] جہاد کے مسائل :۔ اس آیت کے شان نزول سے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :۔ سیدنا نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص کہنے لگا’’مجھے کوئی پروا نہیں اگر میں اسلام لانے کے بعد کوئی عمل نہ کروں سوائے حاجیوں کو پانی پلانے کے۔‘‘ دوسرے نے کہا ’’مجھے کوئی پروا نہیں اگر میں اسلام لانے کے بعد کوئی عمل نہ کروں سوائے مسجد حرام کی تعمیر و آبادی کے۔‘‘ تیسرے نے کہا ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ان کاموں سے افضل ہے جن کا تم ذکر کر رہے ہو۔ ‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ڈانٹا کہ منبر کے پاس اپنی آوازیں بلند نہ کرو۔ نعمان کہتے ہیں کہ وہ جمعہ کا دن تھا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’میں جمعہ کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور جس بات میں تم اختلاف کر رہے ہو اس بارے میں ضرور سوال کروں گا۔‘‘ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الامارۃ باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللہ) اس آیت میں روئے سخن مسلمانوں اور مشرکوں سب کے لیے عام ہے۔ مشرکوں کے لیے اس لحاظ سے کہ وہ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہم حاجیوں کی خدمت کرتے، انہیں پانی پلاتے اور انہیں کھانا کپڑا مہیا کرتے ہیں نیز ہم مسجد حرام کی مرمت یا غلاف کعبہ یا روشنی وغیرہ کا بھی انتظام کرتے ہیں اگر مسلمان اپنے جہاد و ہجرت کو افضل اعمال سمجھتے ہیں تو ہمارے پاس بھی عبادات کا یہ ذخیرہ موجود ہے۔ انہیں تو یہ جواب دیا گیا کہ جب تمہارا آخرت اور اللہ پر ایمان ہی نہیں تو تمہارے یہ سب اعمال رائیگاں جائیں گے اور اگر اس آیت کا روئے سخن مسلمانوں کی طرف سمجھا جائے تو اس سے مراد ان کے اعمال کا باہمی موازنہ ہوگا۔ یعنی صرف اللہ اور آخرت پر ایمان لانے والے مسلمان اللہ کے نزدیک ان مسلمانوں کے برابر نہیں ہو سکتے جو ایمان بھی لائے اور جہاد بھی کیا۔