أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اور گمان کرتے ہو کہ تم (جہاد سے) چھوٹ جاؤ گے حالانکہ ابھی خدا نے یہ بھی ظاہر نہیں کیا کہ کون کون تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں ، اور کون کون ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کے سواکسی کو بھیدی دوست نہیں رکھا اور اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے (ف ١) ۔
[١٤] کافروں کو دخیل یا ہمراز بنانے کے مہلک نتائج :۔ یہ خطاب ان مسلمانوں کے لیے ہے جو نئے نئے اسلام لائے تھے۔ ورنہ ابتدائی مہاجرین و انصار تو اس معیار پر، جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے، پہلے ہی کئی بار پورے اتر چکے تھے اور اپنے اس امتحان میں کامیاب ہوچکے تھے اس معیار میں بالخصوص دو باتیں بیان فرمائیں ایک اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد، دوسرے صرف اللہ اس کے رسول اور مومنوں سے ہی دلی اور راز داری کی دوستی۔ یعنی کسی مسلمان کے لیے یہ کسی صورت میں جائز نہیں کہ وہ غیر مسلم کو اپنے معاملات میں دخیل اور اپنا ہم راز بنائے۔ غیر مسلم کو اسلامی حکومت کے کسی ذمہ دار منصب پر فائز کرنا، یا کسی غیر مسلم کو کوئی جنگی راز وغیرہ بتلا دینا ایسے خطرناک کام ہیں جن کے نتائج ایک مسلم حکومت یا معاشرہ کے لیے نہایت مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا کسی غیر مسلم سے ایسی دوستی گانٹھنے سے ہی سختی سے منع کردیا گیا۔