وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
اور جو یقین رکھتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتری اور جو کچھ تم سے پہلے اترا اس پر بھی اور وہ آخرت کا یقین رکھتے ہیں ۔
[٧] نازل شدہ سے مراد صرف قرآن ہی نہیں بلکہ قرآن کا بیان (توضیح و تشریح) بھی ہے جو قرآن میں موجود نہیں مثلاً نماز ادا کرنے کی ترکیب، محل زکوٰۃ اشیاء، نصاب زکوٰۃ اور شرح زکوٰۃ کی تعیین وغیرہ لاتعداد ایسے احکام و ہدایات جو قرآنی احکام پر عمل پیرا ہونے کے لیے ضروری تھے۔ نیز وہ سابقہ انبیاء پر نازل شدہ وحی پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ آپ پر نازل شدہ وحی پر بالتفصیل ایمان لانا ضروری ہے اور سابقہ انبیاء کی وحی پر اجمالاً کیونکہ قرآنی تصریحات کی رو سے ان کی کتابوں میں تحریف و تبدل ہوچکا ہے۔ یہ چوتھی شرط ہے۔ [٨] آخرت کا مفہوم اور عقیدہ آخرت کی اہمیت :۔ آخرت کا لفظ ایک جامع اصطلاح ہے جس میں کئی طرح کے عقائد شامل ہیں مثلاً (١) مرنے پر انسان کی زندگی کا کلیتاً خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ بلکہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ پھر اس سے اس کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا، لہٰذا وہ اس دنیا میں ایک غیر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنے تمام اعمال کے لیے اللہ کے ہاں جواب دہ ہے (٢) موجودہ نظام کائنات ابدی نہیں بلکہ ایک وقت آنے والا ہے جب یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک دوسرا عالم پیدا فرمائے گا جس میں تمام فوت شدہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کر کے اکٹھا کر دے گا اور فرداً فرداً ہر ایک سے اس کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ (٣) اس فیصلہ کے مطابق جو لوگ کامیاب قرار دیئے جائیں گے وہ جنت میں داخل ہوں گے اور نافرمان، کافر، مشرک وغیرہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ یوم آخرت کی تفصیلات بے شمار ہیں۔ جنہیں یہاں درج کرنا ممکن نہیں۔ مختصراً یہ کہ ایمان بالآخرۃ، ایمان بالغیب کا اتنا اہم جزو ہے جو انسان کو زندگی کا دھارا بدلنے اور صراط مستقیم کی طرف آنے اور تقویٰ اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اسی لیے اس کا ایمان بالغیب کے بعد علیحدہ طور پر بھی ذکر کردیا گیا۔ یہ ’’ایمان با لآخرت‘‘ ہدایت قبول کرنے کے لیے پانچویں شرط ہوئی۔