سورة الانفال - آیت 26

وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور (اے مہاجرین) یاد کرو ، جب تم زمین کمزور اور تھوڑے تھے ، ڈرتے تھے ، کہ تمہیں لوگ اچک لیں گے ، سو اس نے تمہیں (مدینہ میں) جگہ دی ، اور اپنی فتح (بدر) سے تم کو قوت پہنچائی ، اور ستھری چیزیں روزی دیں ، شاید کہ تم شکر کرو (ف ١) ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٦] اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں پر سختیاں :۔ اس آیت کی تشریح کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے جس میں سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا ذکر ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان کن مصائب اور حوصلہ شکن حالات سے دو چار تھے۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا :۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں غفار قبیلے کا ایک شخص تھا مجھے خبر ملی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو اپنے تئیں پیغمبر کہتا ہے۔ میں نے اپنے بھائی (انیس) سے کہا کہ مکہ جا کر اس شخص سے ملو۔ بات چیت کرو اور اس کا حال مجھے آ کر بتلاؤ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر واپس میرے پاس آیا اور کہا ’’واللہ! وہ اچھی بات کا حکم کرتا اور بری بات سے منع کرتا ہے۔‘‘ اس جواب سے میری تسلی نہ ہوئی اور خود مکہ آ گیا۔ یہاں میں کسی کو پہچانتا نہیں تھا۔ نہ مجھے کسی سے آپ کا حال پوچھنا مناسب معلوم ہوا۔ میں زمزم کا پانی پیتا رہا اور مسجد میں بیٹھ رہا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور پوچھا :’’ تم مسافر معلوم ہوتے ہو۔‘‘ میں نے کہا : ہاں۔ آپ نے کہا۔ تو میرے گھر چلو۔ میں ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ نہ انہوں نے مجھ سے کچھ پوچھا اور نہ ہی میں نے کوئی بات کی۔ صبح پھر میں مسجد میں آ گیا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ کسی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ پوچھوں، مگر مجھے کوئی ایسا آدمی نہ ملا۔ دوسرے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ پھر میرے پاس سے گزرے اور پوچھا تجھے ابھی تک کوئی ٹھکانہ نہیں ملا۔ میں نے کہا : نہیں۔ انہوں نے کہا ’’تو میرے ساتھ چلو اور بتلاؤ تمہارا کیا کام ہے ؟ یہاں کیسے آئے ہو؟‘‘ میں نے کہا : اگر تم کسی کو بتلاؤ نہیں تو میں آپ کو بتلاتا ہوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا ٹھیک ہے۔’’ تب میں نے انہیں اپنے بھائی کو بھیجنے کا واقعہ سنایا اور کہا کہ میں اس نبی کو ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ تمہارے لیے بہت اچھا اتفاق ہوا کہ میں بھی اسی نبی کے پاس جا رہا ہوں، تم میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔ جہاں میں داخل ہوا تم بھی داخل ہوجانا اور اگر کوئی خطرہ کی بات ہوئی تو میں دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوجاؤں گا جیسے اپنا جوتا صاف کرنے لگا ہوں (اور ایک روایت میں ہے جیسے پیشاب کرنے لگا ہوں) تم وہاں سے آگے نکل جانا۔ اس طرح ہم ایک مکان میں داخل ہوئے۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ میں نے عرض کی کہ آپ مجھے اسلام سکھلائیے۔ پھر میں اسی وقت مسلمان ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابو ذر! اپنے ایمان کو چھپائے رکھو اور اپنے وطن واپس لوٹ جاؤ۔ جب تمہیں ہمارے غلبہ کی خبر پہنچے تو چلے آنا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ کی قسم! میں اسلام کا کلمہ کافروں کے سامنے ببانگ دہل پکاروں گا۔ پھر میں مسجد میں آیا اور پکارا : قریشیو! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ کہنے لگے: اٹھو اس بےدین کی خبر لو۔ پھر انہوں نے مجھے خوب مارا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھ لیا اور آ کر مجھ پر جھک گئے اور کہا ’’تمہاری خرابی! تم ایک غفاری کو مار رہے ہو، جبکہ تمہارا تجارتی راستہ اسی قوم پر سے گزرتا ہے‘‘ یہ سن کر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ دوسرے دن صبح پھر میں مسجد میں آ گیا اور وہی کلمہ کہا جو کل کہا تھا قریشیوں نے پھر وہی بات کہی کہ اٹھو اور اس کی خبر لو۔ چنانچہ مجھے مار پڑنے لگی۔ اتنے میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آن پہنچے، وہ مجھ پر جھک گئے اور وہی بات کہی جو کل کہی تھی تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب قصہ زمزم، نیز باب اسلام ابی ذر) یعنی مکی زندگی میں مسلمانوں پر ایسا وقت بھی آیا جبکہ اپنے اسلام کو ظاہر کرنا بھی جان جوکھوں کا کام تھا۔ پھر مکی زندگی کے آخری دور تک مسلمانوں پر کفار کی طرف سے سختیوں میں کمی واقع نہیں ہوئی انہیں سختیوں سے تنگ آ کر مسلمانوں نے دو بار حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ بالآخر مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ یہاں آ کر مسلمان قریش مکہ کے مظالم سے کسی حد تک محفوظ ہوگئے۔ مگر مسلمانوں کی مخالفت عامہ میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ مکی دور میں مسلمانوں کے دشمن صرف کفار مکہ تھے۔ جب کہ مدینہ میں کفار مکہ کے علاوہ دوسرے عرب مشرک قبائل اور مدینہ کے یہودی بھی دشمن بن گئے تھے۔ اور صورت حال کچھ اس قسم کی پیدا ہوگئی تھی کہ مسلمان رات کو آرام سے سو بھی نہ سکتے تھے تاآنکہ پہرہ کا کوئی معقول بندوبست نہ کرلیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کی اسی حالت کی طرف اشارہ ہے۔ پھر جب میدان بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم فتح عطا فرمائی اور باطل کی کمر ٹوٹی تب جا کر مسلمانوں کو آزادی سے سانس لینا نصیب ہوا اور مسلمانوں کو بھی قریش مکہ کے ہمسر سمجھا جانے لگا۔ غزوہ بدر سے پہلے تک کفار مکہ کی یہی ذہنیت رہی کہ مسلمان ان کے مفرور قیدی ہیں۔ ان کی اس ذہنیت میں غزوہ بدر کے بعد ہی تبدیلی واقع ہوئی۔ [ ٢٧] یعنی مدینہ میں آزاد سلطنت عطا فرمائی۔ فتح بدر سے تمہاری پوزیشن خاصی مضبوط ہوگئی اور اموال غنائم سے تمہیں پاکیزہ رزق بھی دیا۔ اب تم دل سے، زبان سے اور عمل سے اللہ کا شکر ادا کرو اور عمل سے شکر کی صورت یہ ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت پر مستعد رہا کرو۔