سورة الاعراف - آیت 57

وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۚ كَذَٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور وہی ہے کہ اپنی رحمت کے آگے خوشخبری دینے کی ہوائیں بھیجا کرتا ہے ‘ یہاں تک کہ جب وہ پانی کے بھاری بادل اٹھا لاتی ہیں تو ہم اس بادل کو مردہ شہر کی طرف ہانک دیتے ہیں اور اس سے پانی برساتے ہیں ‘ اور اس سے ہر قسم کا میوہ نکالتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو نکالیں گے ، شاید تم نصیحت پکڑو (ف ٢) ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٠] خوف اور طمع سے پکارنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تمام امیدیں اللہ سے وابستہ رکھے اور اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو اور ڈرنا اس بات سے چاہیے کہ کسی غلطی یا تقصیر کی وجہ سے کہیں اللہ کی بارگاہ میں مردود ہی نہ جاؤں۔ دونوں پہلوؤں کو بہرحال ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ تاہم اللہ سے حسن ظن کا پہلو غالب رہنا چاہیے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے تین دن پہلے فرمایا’’تم میں سے ہر شخص کو مرتے وقت اللہ سے حسن ظن رکھنا ضروری ہے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا باب الامر بحسن ظن باللہ تعالیٰ ) [٦١] مردہ زمین کی زندگی سے بعث بعد الموت پر استدلال :۔ اکثر دہریت پسندوں اور مشرکین مکہ کی دوسری زندگی کے انکار پر یہ دلیل ہوا کرتی کہ ہر چیز جو زمین میں چلی جاتی ہے مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتی ہے پھر دوبارہ ہم کس طرح اٹھا کھڑے کیے جائیں گے اس آیت میں ایسے لوگوں کی دلیل کا رد پیش کیا جا رہا ہے مثلاً یہ کہ ہر چیز جو زمین میں چلی جائے وہ مٹی نہیں ہوجاتی بلکہ مناسب موقع اور احوال سے اس میں زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک مثال تو غلے کا دانہ ہے جو زمین میں دبا دیا جاتا ہے اور جب اس کی مناسب آبیاری کی جاتی ہے اور موسم موافق ہوتا ہے تو اگ آتا ہے مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہوجاتا اور دوسری مثال یہ ہے کہ ایک زمین مدتوں سے بے کار اور بنجر پڑی ہے اس پر باران رحمت کا نزول ہوتا ہے تو جس جس درخت کے بیج اس میں کسی وقت گرے تھے اس مردہ زمین سے ان پھلوں کے بیجوں سے ان کے درخت اگ آتے ہیں وہ پڑے ہوئے بیج اس طویل مدت میں مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہوگئے اور اگر ہو بھی گئے تھے تو مناسب حالات ملنے پر اگ آئے۔ مردہ بیجوں میں زندگی پیدا ہوگئی اور مردہ زمین میں بھی بارش سے زندگی پیدا ہوگئی کہ اس سے مختلف قسم کے پھل اور طرح طرح کی نباتات پیدا ہونے لگیں اسی طرح انسانی جسم مٹی میں مل کر مٹی ہو بھی جائے تو بھی مناسب حالات ملنے پر اس میں زندگی کے آثار پیدا ہوجائیں گے اور انسان کی دوبارہ زندگی کے لیے مناسب وقت نفخہ ئصور ثانی ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ انسان کا جسم مٹی میں مل کر مٹی بن جاتا ہے صرف اس کی ریڑھ کی ہڈی کی دم جسے عجب الذنب کہتے ہیں باقی رہے گی اور یہی ہڈی بیج کا کام دے گی۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ جب صور میں دوسری بار پھونکا جائے گا تو لوگ زمین سے اس طرح اگ آئیں گے جیسے بارش سے نباتات اگ آتی ہے اور یہی اس آیت کا مطلب ہے۔