سورة الفاتحة - آیت 1

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (ف ١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] تلاوت سے پہلے تعوذ کا حکم :۔ قرآن کریم کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے ﴿اَعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرّجیم﴾ ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے آیت ﴿فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ﴾ (16 : 98) ’’جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کیجئے‘‘ اور یہ تو ظاہر ہے کہ پناہ کسی نقصان پہنچانے والی چیز یا دشمن سے درکار ہوتی ہے اور ایسی ہستی سے پناہ طلب کی جاتی ہے جو اس نقصان پہنچانے والے دشمن سے زیادہ طاقتور ہو۔ شیطان چونکہ غیر محسوس طور پر انسان کی فکر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ دعا دراصل قرآن کی تلاوت کے دوران کج فکری سے بچنے اور قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی دعا ہے۔ نیز یہ وہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو سکھائی اور اسے پڑھنے کا حکم دیا۔ (1) فضائل سورۃ فاتحہ :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے اوپر ایک زور دار آواز سنی انہوں نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر فرمایا : ’’یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا‘‘ پھر فرمایا :’’ یہ ایک فرشتہ ہے جو آج سے پہلے زمین پر کبھی نازل نہیں ہوا۔ پھر اس فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور دو نوروں کی خوشخبری دی اور کہا :’’ یہ دو نور آپ ہی کو دئیے جا رہے ہیں۔ آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے۔ ایک سورۃ فاتحہ اور دوسرا سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات۔ آپ جب کبھی ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کو طلب کردہ چیز ضرور عطا کی جائے گی۔‘‘ (صحیح مسلم۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضل الفاتحہ) (2) سورۃ فاتحہ کے مختلف نام :۔ سیدنا ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے مجھے فرمایا : ’’میں تجھے قرآن کی ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی سب سورتوں سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ وہی ﴿سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ﴾ اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا۔‘‘ (بخاری : کتاب التفسیر، سورۃ انفال: 24 ﴿يٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا نیز تفسیر سورۃ فاتحہ) (3) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سورۃ الحمد ہی ام القرآن، ام الکتاب اور دہرائی ہوئی سات آیتیں ہیں۔ (ترمذی : ابواب التفسیر، تفسیر سورۃ محمد) اس سورۃ کا سب سے زیادہ مشہور نام الفاتحة ہے جس کے معنی ہیں کھولنے والی یعنی دیباچہ، مقدمہ یا پیش لفظ۔ اس کے متعلق علماء کی دو آرا ہیں : ایک یہ کہ یہ سورۃ ایک دعا ہے جو بندوں کو سکھائی گئی ہے کہ وہ اس انداز سے اللہ سے ہدایت طلب کیا کریں اور باقی سارا قرآن اس دعا کا جواب ہے۔ ان حضرات کی توجیہ یہ ہے کہ اس سورۃ کا ایک نام سورۃ الدعاء بھی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ سورۃ سارے مضامین قرآن کا اجمالی خلاصہ ہے۔ پھر اس سورۃ کا خلاصہ ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ ہے۔ ہمارے نزدیک دوسری رائے ہی راجح ہے اور اس کی مندرجہ ذیل دو وجوہ ہیں : 1۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو قرآن عظیم، ام الکتاب اور ام القرآن فرمایا ہے جس کا مفہوم یہی ہے کہ یہ سورۃ سارے قرآن کا خلاصہ ہے۔ 2۔ اس سورۃ کی آیات پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی از خود یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں پورے قرآن کا خلاصہ یا اجمالی ذکر کیا گیا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ علمائے تفسیر نے قرآن کے مضامین کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے جو یہ ہیں : (1) تذکیر بالآء اللہ : یعنی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا بیان جو انسانی زندگی اور اس کی بقا کے لیے ضروری تھیں اور اس میں زمین، آسمان، چاند، سورج اور ہواؤں اور بادلوں وغیرہ کا ذکر سب کچھ آ جاتا ہے۔ (2) تذکیر بایام اللہ : یعنی مخلوق کے ساتھ واقعات اور حوادث کا بیان اس میں قصص الانبیاء اور نافرمانی کی بنا پر ہلاک شدہ قوموں کا ذکر شامل ہے۔ (3) تذکیر بالموت و مابعدہ : یعنی موت کے بعد آخرت کے احوال۔ اس میں اللہ کے ہاں باز پرس اور جنت و دوزخ کے سب احوال شامل ہیں۔ (4) علم الاحکام یعنی احکام شریعت : تذکیر بالآء اللہ، تذکیر بایام اللہ اور تذکیر بالموت، سب کا مقصد حقیقی یہی ہے کہ ان کے ذکر سے انسان کو برضاء و رغبت احکام شریعت کی بجا آوری پر آمادہ کیا جائے۔ (5) علم المخاصمہ : یعنی گمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ کا رد۔ اب دیکھئے اس سورۃ کی پہلی تین آیات میں یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے لے کر دوسری بار الرحمٰن الرحیم تک اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ اور رحمت کی وسعت کا ذکر ہے اور یہ تذکیر بالآء اللہ کے ذیل میں آتی ہیں اور چوتھی آیت ﴿ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ تذکیر بالموت کے ذیل میں۔ پانچویں آیت ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ علم الاحکام کا نچوڑ ہے۔ اور چھٹی آیت اللہ سے دعا اور تعلق باللہ پر مشتمل ہے اور یہ علم الاحکام ہی کے ذیل میں آتی ہے۔ اور ساتویں آیت میں تذکیر بایام اللہ بھی ہے اور علم المخاصمہ بھی۔ اس لحاظ سے یہ سورۃ فی الواقع قرآن کی اجمالی فہرست ہے اور اس ساری سورۃ کا خلاصہ آیت ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ہے۔ یعنی انسان صرف ایک اللہ کی عبادت کرے جس میں کسی قسم کے شرک کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس سورۃ کا نام الشفاء اور الرقیہ بھی ہے اور ان ناموں کی وجہ تسمیہ درج ذیل حدیث ہے : سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی اصحاب عرب کے ایک قبیلہ پر پہنچے۔ جنہوں نے ان کی ضیافت نہ کی۔ اتفاق سے ان کے سردار کو بچھونے کاٹ لیا۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور کہنے لگے : ’’تم میں سے کسی کے پاس بچھو کے کاٹے کی کوئی دوا یا منتر ہے؟‘‘ انہوں نے کہا : ’’ہاں ہے۔ مگر چونکہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی اس لیے ہم اس کا معاوضہ لیں گے‘‘ انہوں نے چند بکریاں (ایک دوسری روایت کے مطابق ٣٠ بکریاں) دینا قبول کیں۔ ایک صحابی (خود ابو سعید رضی اللہ عنہ) نے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کی۔ وہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک مار دیا کرتے۔ چند دنوں میں وہ سردار اچھا ہوگیا۔ (حسب وعدہ) قبیلہ کے لوگ بکریاں لے آئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو تردد ہوا (کہ آیا یہ معاوضہ لینا بھی چاہئے یا نہیں) اور کہنے لگے کہ جب تک ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لیں یہ بکریاں نہ لینا چاہئیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ منتر بھی ہے؟ وہ بکریاں لے لو اور (ان میں سے) میرا حصہ بھی نکالو‘‘ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ پہنچے تو کسی نے کہا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص (ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ) نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ “(تمہارے اجرت لینے کی سب سے زیادہ مستحق تو کتاب اللہ ہی ہے) (بخاری۔ کتاب الطب والرقي۔ باب الرقی بفاتحۃ الکتاب) اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں : 1۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اجرت کا مطالبہ صرف اس لیے کیا تھا کہ ان بستی والوں نے ان کی مہمانی سے انکار کردیا تھا۔ بالخصوص ان دنوں میں جبکہ وسائل سفر محدود، سست رفتار اور ہوٹل وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے اور ملکی دستور یہ تھا کہ مہمانی سے انکار کو قتل کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ 2۔ اگر دم جھاڑ کی ضرورت پیش آئے تو صرف کتاب اللہ سے ہی کرنا چاہئے یا کم از کم دم جھاڑ کرنے والا شرکیہ یا مہمل الفاظ نہ پڑھے۔ 3۔ ضرورت مند لوگ دم جھاڑ کی اجرت بھی لے سکتے ہیں۔ رہا علی الاطلاق دم جھاڑ کو ایک مستقل پیشہ بنا لینا یا خانے بنا کر یا مہمل الفاظ سے تعویذ لکھنا۔ انہیں پانی میں گھول کر پلانا۔ گلے میں لٹکانا یا کسی دوسری جگہ باندھنا، ایسے سب کام شرعاً ناجائز ہیں اور اس کی تفصیل سورۃ القیامۃ میں آئے گی۔ نیز اس سورۃ کا نام سورۃ الصلوٰۃ اور سورۃ الدعا اور تعلیم المسئلہ (مانگنے کے آداب) بھی ہے۔ قراۃ فاتحہ خلف الامام :۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی اس کی نماز ناقص، ناقص، ناقص اور ناتمام ہے‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا : ’’ابوہریرہ ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟‘‘ وہ کہنے لگے : ’’'فارسی کے بیٹے دل میں (چپکے چپکے) پڑھ لو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے نماز (سورہ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کردیا ہے۔ آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے جو کچھ وہ سوال کرے۔ میرا بندہ (نماز میں) کھڑا ہوتا اور کہتا ہے ﴿ اَلْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ پھر وہ کہتا ہے ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثناء بیان کی۔ پھر وہ کہتا ہے﴿ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ﴾ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور سورت کا باقی حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ کچھ ملے گا جو اس نے مانگا۔ (مسلم۔ کتاب الصلوۃ۔ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ۔ ترمذی۔ ابواب التفسیر۔ سورۃ الفاتحۃ) سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " لاَ صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ" (بخاری کتاب الاذان) اور امام بخاری نے تو باب کا نام ہی ان الفاظ سے قائم کیا ہے۔ ( وجوب القرأۃ للامام والمأموم فی الصلوۃ کلھا فی الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت) اس باب کے الفاظ کے عموم سے ہی یہ بات واضح ہے کہ خواہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو یا مقتدی ہو یا امام ہو، نماز خواہ سری ہو یا جہری ہو ہر صورت میں اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔ ترمذی، ابوداؤد، احمد اور ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ہم سے پوچھا : ’’تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے رہتے ہو؟‘‘ ہم نے کہا : ’’ہاں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فاتحہ الکتاب کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (سبل السلام۔ کتاب الصلوۃ۔ باب صفۃ الصلٰوۃ حدیث نمبر 13) گویا سورۃ فاتحہ کے کل دس نام معلوم ہوئے۔ سورۃ الفاتحۃ، الحمد، سبعا من المثانی، أم القرآن، أم الکتاب، الشفاء، الرقیۃ، الدعاء، تعلیم المسئلۃ اور الصلوۃ اور بعض نے اس سے بھی زیادہ لکھے ہیں۔ زمانہ نزول: اس سورۃ کا ترتیب نزول کے لحاظ سے پانچواں نمبر ہے۔ گویا یہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی اور یہی پہلی سورت ہے جو پوری کی پوری یکبارگی نازل ہوئی۔ [٢] کیا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورۃ فاتحہ کا جز ہے؟ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے زمانہ نزول میں بتایا جاچکا ہے کہ اس میں اقرا یا ابدا محذوف ہے۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں (شروع) کا لفظ بڑھایا ہے۔ اب یہ بحث باقی رہ جاتی ہے کہ آیا یہ آیت سورۃ فاتحہ کا جز ہے یا نہیں۔ اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ آیا جہری نمازوں میں امام کو اس کی قراءت بلند آواز سے کرنی چاہئے یا خفی آواز سے؟ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورت کے ختم ہونے کو نہیں پہچانتے تھے جب تک بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نازل نہ ہوتی (ابوداؤد۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ماجاء من جھر بھا) جس کا مطلب یہ ہوا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورتوں کی تعداد کے برابر (ماسوائے سورۃ التوبہ) یعنی ١١٣ بار نازل ہوئی۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ پر ایک غنودگی سی طاری ہوئی۔ پھر آپ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا۔ ہم نے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ فرمایا : مجھ پر ابھی ابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ آپ نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ کر ﴿ اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ ﴾ پوری سورت پڑھی۔ (مسلم : کتاب الصلوۃ، باب حجۃ من قال البسملۃ آیۃ من اول کل سورۃ سواء براء ۃ) امام مسلم اس حدیث کو جس باب کے تحت لائے ہیں اس کے عنوان کا ترجمہ یہ ہے ’’سورۃ توبہ کے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو ہر سورت کا جز کہنے والوں کی دلیل‘‘ اس دلیل کی رو سے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم صرف سورۃ فاتحہ کا ہی جز نہیں بلکہ ہر سورت کا جز قرار پاتی ہے۔ نیز یہ آیت سورۃ نمل کی ایک مستقل آیت بھی ہے۔ (٢٧: ٣٠) علاوہ ازیں قرآن کی تصریح کے مطابق سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں۔ اور یہ سات آیات تب ہی بنتی ہیں جب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت شمار کیا جائے۔ یہ سب وجوہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس آیت کی قراءت جہری ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں متضاد روایات ملتی ہیں سب سے زیادہ مشہور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی وہ حدیث ہے جسے بخاری، مسلم اور نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ﴿اَلْحَمْدُ اللہ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ سے نماز شروع کیا کرتے تھے اور مسلم میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ : ﴿ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم﴾ نہ قراءت کی ابتدا میں پڑھتے تھے اور نہ آخر میں‘‘ اب یہ تو واضح ہے کہ مسلم میں مروی جملہ میں فی نفسہ مبالغہ میں زیادتی ہے ورنہ سورۃ فاتحہ کے آخر میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ہے کب؟ اور جو لوگ بسم اللہ بالجہر پڑھنے کے قائل ہیں وہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ آپ سورۃ فاتحہ کے بعد جو سورۃ پڑھتے تھے اس کی ابتدا میں بھی بسم اللہ بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔ اب اس کے برعکس نسائی کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : نعیم مجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھی۔ پھر ام القرآن پڑھی تاآنکہ وہ ﴿وَلاَالضَّالِیْنَ﴾ تک پہنچے تو آمین کہا۔ پھر جب بھی سجدہ کرتے یا بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے۔ پھر جب سلام پھیرتے تو کہتے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم سب سے زیادہ میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے' (نسائی۔ کتاب الصلوۃ۔ باب قراءۃ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ یہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے اور یہ اصل کی تائید کرتی ہے جو یہ ہے کہ قراءت میں جو حکم فاتحہ کا ہے وہی بسملہ کا ہے۔ خواہ یہ جہراً ہو یا سراً ہو۔ کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول کہ ’’میری نماز تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے‘‘ سے واضح ہے کہ آپ بسملہ کی قراءت فرماتے تھے۔ اگرچہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے اکثر افعال و اقوال سے ہو مگر یہ ظاہر کے خلاف ہے اور کسی صحابی سے یہ بعید ہے کہ اس نے اپنی نماز میں کوئی ایسا نیا کام کیا ہو جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو۔ (سبل السلام مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ۔ شیش محل روڈ لاہور۔ الجزء الاول ص ١٧٣) نیز صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ : ’’اس مسئلہ میں علماء نے لمبی چوڑی بحث کی ہے اور بعض نامور شخصیات نے کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔ اور یہ وضاحت کی ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث مضطرب ہے۔ ابن عبدالبر "الاستذکار" میں کہتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی تمام روایات کی تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ اس اضطراب کی وجہ سے کسی بھی فقیہ کے لیے اس سے حجت قائم نہیں ہوتی، نہ اس کے لیے جو بسملہ کی قراءت کرتے ہیں اور نہ ان کے لیے جو نہیں کرتے۔ اس کے متعلق سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ’’میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور بھول جاتا ہوں، لہٰذا اس میں کوئی حجت نہیں‘‘ (ایضاً، ص ١٧٢) بعض علماء نہ اس آیت کی جہری قراءت کے قائل ہیں اور نہ ہی اس آیت کو سورۃ فاتحہ کا جز قرار دیتے ہیں اور سات آیات کی تعداد پورا کرنے کے لیے ﴿ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِم﴾ کے آگے ٥ کا ہندسہ لکھ دیتے ہیں۔ جو کو فیوں کے نزدیک آیت کی علامت ہے لیکن یہ متفق علیہ آیت نہیں ہوتی۔ پھر لطف یہ کہ اس ٥ پر لا بھی لکھ دیا گیا ہے۔ یعنی یہاں وقف ممنوع ہے اور یہ تکلف صرف اس لیے کیا گیا کہ بسم اللہ کو نہ فاتحہ کا جزء سمجھا جائے اور نہ اسے جہری نمازوں میں بلند آواز سے پڑھا جائے۔ مجمع ملک فہد نے عرب ممالک کے لیے جو قرآن طبع کیا ہے ہمارے خیال میں اس میں معتدل رویہ اختیار کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں تو اس آیت کو سورۃ کا جزء قرار دیا گیا ہے اور اس پر ایک کا نمبر لکھا گیا ہے۔ ﴿اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ﴾ کے آگے کچھ نہیں لکھا۔ البتہ باقی سورتوں میں اس آیت کو سورۃ کا جز قرار نہیں دیا گیا جس سے از خود یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ سورۃ فاتحہ سے پہلے یہ آیت جہری نمازوں میں جہر سے پڑھنا بہتر ہے اور دوسری سورتوں میں سر سے۔ [٣] رحمٰن اور رحیم دونوں مبالغہ کے صیغے اور اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام اور ر ح م سے مشتق ہیں۔ لیکن لفظ رحمان میں رحیم کی نسبت اتنا زیادہ مبالغہ ہے کہ رحمٰن کا لفظ دوسرے نمبر پر اللہ کے ذاتی نام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی صراحت قرآن کی بے شمار آیات میں مذکور ہے۔ مثلاً ﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآن﴾)  55۔1) ﴿ اَلرحمٰن عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی ﴾(5:20) ﴿ قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا﴾(17 : 110)اس لحاظ سے اللہ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی سب صفات پائی جاسکتی ہیں سوائے رحمٰن کے۔ ایک انسان رحیم، رؤف، کریم وغیرہ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر رحمٰن اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث صحیح میں مذکور ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ دو نام پسند ہیں ایک عبداللہ، دوسرا عبدالرحمٰن۔ (ترمذی : ابواب الادب، باب ماجاء ما یستحب من الاسماء) اکثر علماء نے رحمٰن اور رحیم کے فرق کو رحمت کی کیفیت اور کمیت کی کمی بیشی کی مختلف صورتوں سے واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اور ایک عام قول یہ ہے "رحمٰن فی الدنیا رحیم فی الاخرۃ "یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں رحمان ہے جو مسلمان، کافر، مشرک سب پر ایک جیسی رحمتیں نازل فرماتا ہے اور رحیم آخرت میں ہے۔ جو صرف ایمانداروں پر رحمتیں نازل فرمائے گا۔ اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صفت رحمانیت کا تقاضا ایسی نعمتیں اور رحمتیں ہیں جو حیات کے وجود اور بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اور اس میں صرف انسان ہی نہیں جملہ جاندار مخلوقات شامل ہیں۔ جیسے سورج، چاند، نور و ظلمت، ہوا، پانی اور زمین کی تخلیق جو زندگی کی جملہ ضروریات کی کفیل ہے نیز ماں کی مامتا اور فطری محبت کے تقاضے بھی اس میں شامل ہیں اور رحیم سے مراد وہ رحمت ہے کہ کسی مصیبت یا ضرورت کے وقت پہنچ کر سہارا دیتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب