قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ فِي النَّارِ ۖ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا ۖ حَتَّىٰ إِذَا ادَّارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لِأُولَاهُمْ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ۖ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَٰكِن لَّا تَعْلَمُونَ
اللہ کہے گا جنوں اور آدمیوں کی امتوں کو سمیت جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں ، تم بھی آگ میں داخل ہو جب ایک امت داخل ہوگی تو دوسری کو لعنت کریگی ، یہاں تک کہ جب سب دوزخ میں رل مل چکیں گے ، تو پچھلے پہلوں کے حق میں کہیں گے ، اے ہمارے رب ہمیں انہوں نے گمراہ کیا تھا سو انہیں آگ کا دونا عذاب دے ، وہ کہے گا سب کے لئے دونا ہے مگر تم نہیں جانتے ۔ (ف ٢) ۔
کفار کی گردنوں میں طوق: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مشرکوں کو جو اللہ تعالیٰ پر افترا باندھتے تھے اور اس کی آیات کو جھٹلاتے تھے۔ فرمائے گا کہ تم بھی اپنے جیسوں کے ساتھ جو تم سے پہلے دوزخ میں داخل ہوچکے ہیں خواہ وہ جنات میں سے ہوں یا انسانوں میں سے جہنم میں جاؤ، ہر گروہ اپنے جیسے گروہ پر اس دن لعنت کرے گا جیسا کہ حضرت ابراہیم نے فرمایا ’’کہ تم ایک دوسرے سے اس روز کفر کرو گے۔‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ۔ وَ قَالَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا كَذٰلِكَ يُرِيْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ حَسَرٰتٍ عَلَيْهِمْ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ﴾ (البقرۃ: ۱۶۶۔ ۱۶۷) ’’وہ ایسا بُرا وقت ہوگا کہ گرو اپنے چیلوں سے دست بردار ہوجائیں گے عذابوں کو دیکھتے ہی آپس کے سارے تعلق ٹوٹ جائیں گے، مرید لوگ کہیں گے کہ اگر ہمیں اس وقت دنیا میں واپس جانا مل جائے تو جیسے یہ آج ہم سے بیزار ہوگئے ہیں ہم بھی ان سے بالکل ہی دست بردار ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ان کے اعمال ان کے سامنے لائے گا جو ان کے لیے موجب حسرت ہونگے اور دوزخ سے کبھی آزادانہ ہونگے۔‘‘ مکافات عمل کے تقاضے: اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ سب کے لیے دگنا عذاب ہے یعنی اگر کسی نے شرکیہ یا بدعیہ رسم کو ایجاد کیا تو اسکے پیروکاروں کے گناہوں کا بار موجد کے اوپر بھی ہوگا مثلاً جیسے آدم علیہ السلام کے بیٹے نے پہلا قتل کیا رسول اللہ نے فرمایا کہ جہاں کہیں بھی قتل ہوتا ہے تو اس کے قتل کا کچھ حصہ آدم علیہ السلام کے اس بیٹے کے کھاتے میں بھی ڈالا جاتا ہے جس نے یہ طرح ڈالی۔ ارشاد ہے: ﴿لِيَحْمِلُوْا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ (النحل: ۲۵) ’’وہ اپنے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے علاوہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی۔ وہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جنھیں انھوں نے بغیر علم کے گمراہ کیا تھا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے کسی اچھے کام کی طرح ڈالی تو اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب سے اس طرح ڈالنے والے کو بھی ملتا رہے گا اور جس نے کسی بُرے کام کی طرح ڈالی تو اس پر عمل کرنے والوں کی سزا میں سے حصہ رسدی اسے بھی ملتا رہے گا۔ (مسلم: ۱۰۱۷) مکافات عمل کے لیے یوم آخرت ضروری ہے: مکافات عمل کے اس اصول کا تقاضا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کو لا محدود مدت کی زندگی حاصل ہوتا کہ اسے اپنے کیے کی پوری سزا و جزا مل سکے۔ مثلاً ایک شخص پچاس آدمیوں کو قتل کرتا ہے۔ تو قصاص کے طور پر ایک قتل کے بدلے اس کی جان لے لی جاتی ہے باقی انچاس آدمیوں کی سزا یہاں وہ کیسے بھگت سکتا ہے لہٰذا مکافات عمل کا تقاضا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کو لا محدود مدت کی زندگی حاصل ہوتا کہ اُسے اعمال کی پوری پوری سزا یا جزا دی جاسکے۔