وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور (کہا ہے) کہ یہ میری سیدھی راہ ہے ، سو اس پرچلو ، اور کئی راہیں نہ چلو ، کہ وہ راہیں تمہیں اس کی راہ سے الگ کر دینگی یہ ہیں ، جو اس نے تمہیں حکم دیئے ، شاید تم ڈرو (ف ١) ۔
صراط مستقیم: پچھلی آیات میں جو احکام دیے گئے ہیں وہی صراط مستقیم پر چلنے والے ہیں۔ (۱) اللہ کے ساتھ شریک نہ بناؤ۔ (۲) والدین سے اچھا سلوک کرو۔ (۳)مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ (۴) بے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ۔ (۵) ناحق قتل نہ کرو۔ (۶) یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔ (۷)ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو۔ (۸) عدل و انصاف کی بات کہو۔ (۹) عہد کو پورا کرو قرآن کریم میں فرمایا: قرآن کی یا اللہ کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ ایک ہی راہ ہے۔ اس لیے پیروی اسی راہ کی کرنی ہے کسی اور کی نہیں اور یہی راہ ملت مسلمہ کی وحدت و اجتماع کی بنیاد ہے۔ جس سے ہٹ کر اُمت فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ قرآن میں ( ان اقیمو الدین ولا تتفرقوافیہ) دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔ گویا اختلاف و تفرقہ کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ رسول اللہ نے اس کو اس طرح واضح کیا۔ کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے اور چند خطوط اس کے دائیں اور بائیں جانب کھینچے اور فرمایا ’’یہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ ان کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔