سورة الانعام - آیت 108

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تم مسلمان ان کے معبودوں کو جن کو وہ خدا کے سوا پکارتے ہیں ‘ برا نہ کہو کہ وہ بےسمجھے سرکشی سے اللہ کو برا کہیں گے اسی طرح ہم نے ہر امت کے لئے ان کے اعمال اچھے دکھلائے ہیں ‘ پھر انہیں اپنے رب کی طرف جانا ہے سو وہ انہیں جتائے گا جو وہ کرتے تھے ۔ (ف ١) ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

صبر سے کام لو اور غصہ میں آکر ان کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہو، ورنہ ردِ عمل کے طور پر وہ تمہارے معبود حقیقی اللہ کو گالیاں دینا شروع کردیں گے اور بالواسطہ تم خود ہی گالی دینے کا سبب بن جاؤ گے۔ بڑے فتنے سے بچنے کے لیے چھوٹا فتنہ گوارا کرلینا چاہیے: جب کسی بڑے فتنہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو تو اس سے بچنے کے لیے چھوٹے فتنہ کو گوارا کرلینا چاہیے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ مکہ میں کچھ لوگ اپنی کمزوری ایمان کی وجہ سے ہجرت نہیں کر پارہے تھے۔ اور مشرکین مکہ کے پاس ہی پناہ لیے ہوئے تھے۔ جب ان مشرکوں کی مسلمانوں سے جنگ ہوتی تو مشرک ان لوگوں کو اپنی فوج کے آگے کردیتے۔ اب اگر مسلمانوں کی فوج ان مسلمانوں کو مارے تو قتل کی مجرم ہوتی ہے۔ اور نہ مارے تو مسلمان مرتے ہیں ایسی صورت میں ان مسلمانوں کو مار دینا ہی بہتر ہے اور اللہ نے ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں پر سخت نکیر فرمائی ہے۔ حافظ عبدالرزاق قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’مسلمان کفار کے بتوں کو بُرا بھلا کہتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘