وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا ۗ وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ
اور اگر اللہ چاہتا ، تو وہ شریک نہ ٹھہراتے اور تجھے ہم نے ان پر نگہبان نہیں بنایا ، اور تو ان پر داروغہ ہے ۔ (ف ٥) ۔
اللہ کی مشیت اور ہے اور اسکی رضا اور، اللہ کی رضا تو اسی میں ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ لہٰذا اس نے اس پر انسانوں کو مجبور نہیں کیا۔ کیونکہ جبر کی صورت میں انسان کی آزمائش نہ ہوتی ورنہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو ایسے اختیارات ہیں کہ وہ چاہے تو انسان شرک کرنے پرقادر ہی نہ ہو۔ رسول اللہ کی داعیانہ حیثیت: قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے منصب رسالت کا تقاضا صرف اسی حد تک ہے کہ آپ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں۔ اس سے زیادہ اگر آپ کے پاس اختیارات ہوتے تو آپ اپنے چچا اور محسن ابو طالب کو ضرور مسلمان کرلیتے، جن کے قبول اسلام کی آپ شدید خواہش رکھتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَذَكِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَكِّرٌ۔ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ۔ا ِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَ كَفَرَ۔ فَيُعَذِّبُهُ اللّٰهُ الْعَذَابَ الْاَكْبَرَ﴾(الغاشیۃ: ۲۱۔ ۲۴) ’’اچھا تو (اے نبی) نصیحت کیے جاؤ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو۔ البتہ جو شخص منہ موڑے گا اور انکار کرے گا، تو اللہ اس کو بھاری سزا دے گا۔‘‘