وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اور جو ایمان لائے اور نیک کام کئے ، وہ لوگ بہشتی ہیں اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے ۔
قرآن پاک کا یہ انداز ہے کہ وہ دوزخ کے ساتھ جنت کا ذکر بھی کرتا ہے یہاں یہ بتاتا جارہا ہے کہ نیک اور بد برابر نہیں ہوسکتے اس لیے جو جیسے اعمال کرے گا ویسا ہی بدلہ پائے گا۔نیک اعمال جنت تک لے جاتے ہیں ۔ اگر ہم برائی چھوڑ دیں، جھوٹ چھوڑ دیں، نافرمانی کو بُرا سمجھیں، اللہ سے معافی مانگیں اور نیکی کے کام کرکے اپنے گناہوں کی تلافی کریں ، تو پھر نیکی کے کام کرنا اچھا لگے گا۔ نیک لوگوں کی صحبت میں رہنے سے اعمال میں تبدیلی آتی ہے۔ خود ساختہ عقیدے بُرائی کی طرف لے جاتے ہیں۔ مثلاً دس بیبیوں کا معجزہ پڑھا دو برکت ہوجائے گی۔ (۲) اسی طرح اولیاء کے قصے سنائے جاتے ہیں تاکہ قرآن کا سچا علم نہ حاصل کریں۔ (۳) کچھ وظائف پڑھ لو معافی مل جائے گی۔ (۴) خوش گمانیوں پر جیتے ہیں سچی دعوت زندگی کے حقائق سامنے لیکر آتی ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے دنیا کی آسائشیں چھوڑنا پڑتی ہیں۔ انسان لغو، لایعنی اور بے مقصد کاموں میں مصروف ہوکر برائی کی طرف چلاجاتا ہے۔