وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ ۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ
اور تم ہمارے پاس ایک ایک کر کے آئے جیسے ہم نے پہلی دفعہ تمہیں پیدا کیا تھا ، اور جو اسباب ہم نے تمہیں دیا تھا اس کو تم پس پشت چھوڑ آئے ہو ، اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جن کی نسبت تمہارا یہ دعوی تھا کہ وہ تمہارے شریک ہیں تمہارے درمیان کا پیوند ٹوٹ گیا ، اور جو دعویٰ تم کرتے تھے جاتا رہا۔ (ف ١)
شانِ نزول: ابن جریر کی روایت ہے نذر بن حارث نے کہا کہ لات اور عُزی ہماری سفارش کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اکیلے اکیلے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے فرمایا جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر افتراباندھا تھا، کہ تم اکیلے اکیلے جیسے تمہیں پیدا کیا تھا واپس میرے پاس آگئے ہو، تمہارے ساتھ نہ مال ہے نہ اولاد، نہ وہ معبود جن کو تم نے اللہ کا شریک اور اپنا مددگار سمجھ رکھا تھا۔ موت کے ساتھ ہی سب رشتے کٹ جاتے ہیں۔ اور صرف انسان کے اپنے اعمال پر ہی آخری انجام کا دارومدار ہوگا۔ موت کے بعد ان ظالموں کو یہ یاد ہی نہ ہوگا کہ دنیا میں ان کے تعلقات کس کس سے تھے اور کس کس نوعیت کے تھے۔ حسن بصری نے فرمایا ’’اللہ پوچھے گا جو کچھ تمہیں دیا تھا اُس کا کیا کیا۔ کہے گا بڑھا چڑھا کر چھوڑ آیا۔ اللہ فرمائے گا یہاں تو کچھ بھی نہیں جو کچھ آگے بھیجا ہے وہ کہاں ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ﴾ (القصص: ۶۴) ’’اپنے شریکوں کو بلاؤ اپنے شریکوں کو بلاؤ جب انھیں پکارا جائے گا وہ کوئی جواب نہیں دیں گے۔‘‘ اس آیت کو پڑھ کر مومن کا دل ایمان و یقین سے بھرجاتا ہے اور وہ اللہ کا دامن تھام لیتا ہے دعا مانگنی ہے قرب قربانی سے ملتا ہے۔