وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ ۗ مَن يَشَإِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَن يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ، وہ تاریکیوں میں بہرے اور گونگے ہیں ، جسے چاہئے اللہ گمراہ کرے ، اور جسے چاہے راہ راست پر لائے ،
آیات الٰہی کی تکذیب کرنے والے چونکہ اپنے کانوں سے حق بات سنتے نہیں۔زبان سے حق بات کہتے نہیں اس لیے وہ ایسے ہی ہیں جیسے گونگے اور بہرے ہوتے ہیں۔ اس کی مثال جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّااَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِيْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ۔ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۱۷۔ ۱۸) ایک شخص نے آگ جلائی بس آس پاس کی چیزیں روشنی میں آئی ہی تھیں کہ اللہ ان کے نور کو لے گیا اور انھیں اندھیروں میں چھوڑ دیا جونہیں دیکھتے ۔ بہرے، گونگے اندھے ہیں پس وہ نہیں لوٹتے۔ شعور روشن نہیں وہ اندھیروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے انھیں کوئی چیز ایسی نظر نہیں آتی جس سے انکی اصلاح ہوسکے، گویا ان کے حواس بند ہوگئے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تمام اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ جسے چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر لگا دے۔ لیکن اس کا یہ فیصلہ ایسا ہی نہیں ہوگا بلکہ عد ل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوگاجو گمراہی کو پسند کرتا ہے اور اس سے نکلنے کی کوشش بھی نہیں کرتا اللہ اس کے لیے گمراہی کا راستہ آسان کردیتا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ: ’’انسان کا دل رحمٰن کی دو انگلیوں کے درمیان ہے جس کو جدھر چاہے موڑ دیتا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ: ۳۸۳۴)