وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ
اور کوئی چلنے والا جانور ، یا دو بازو سے اڑنے والا پرندہ زمین میں نہیں ہے مگر تم آدمیوں کی مانند وہ بھی امتیں ہیں ، ہم نے کتاب میں کوئی چیز لکھنے میں نہیں چھوڑی پھر وہ اپنے رب کی طرف جائیں گے (ف ١) ۔
اللہ تعالیٰ نے معجزات کے مطالبے پر انسان کی توجہ زمین میں جانداروں اور پرندوں کی طرف دلائی ہے کہ ان کو دیکھو، ان سے سیکھو کہ وہ منظم اور بامقصد زندگی گزار رہے ہیں اور ان کا مالک رب ہے اور یہ سب انواع اللہ کے قوانین کی پابند ہیں اور اپنی فطری حدود سے سرموتجاوز نہیں کرتیں اور نہ کرسکتی ہیں ان سب جانداروں کو بھی وحی کے ذریعے وہ علوم سکھائے جاتے ہیں جو ان کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ مثلاً گائے بھینس اور بکری وغیرہ پرحرام ہے کہ وہ گوشت کھائیں، اسی طرح شیر اور جنگلی جانوروں پر گھاس کھانا حرام ہے۔ اگر یہ سب اپنی حدود سے تجاوز کریں گے تو الٹا انھیں سخت نقصان ہوگا، شہد کی مکھیوں کو بذریعہ وحی سکھایا کہ وہ اس قسم کا گھر تیار کریں پھر پھلوں اور پھولوں سے رس چوس کر شہد بنائیں۔ اب انسان کو جو قوت ارادہ و اختیار دیا گیا ہے تو اس کے ساتھ ابتلاو آزمائش بھی انسان ہی کے لیے ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ کسی معجزے کا مطالبہ کرنے کی بجائے دوسری انواع کی طرح اپنے آپ کو احکام الٰہی کا پابند بنائے۔ مسند احمد: ۵/ ۱۶۲میں روایت ہے کہ دو بکریوں کو لڑتے ہوئے دیکھ کر حضرت ابوذر سے پوچھا ’’یہ کیوں لڑ رہی ہیں جواب دیا کہ میں نہیں جانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہ اللہ جانتا ہے اور اللہ ان کے مابین فیصلہ کردے گا۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تمام چرند پرند اللہ کے سامنے حاضر ہونگے اور اگر بے سینگ والی بکری نے سینگ والی بکری کومارا ہوگا تو اس کا بھی فیصلہ ہوگا اور اُسے کہا جائے گا کہ تم مٹی ہوجاؤ اسی طرح کافر بھی کہیں گے وہ مٹی میں چلے جائیں۔ (مسلم: ۲۵۸۲) سورۃ العنکبوت میں ارشاد ہے: ’’اللہ ان کو رزق دیتا ہے وہ تمہارا بھی رازق ہے اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ جانوررزق تلاش کرتے ہیں، لوٹ مار نہیں کرتے انسان لوٹ مار کرتا ہے حرص وہوس میں جانوروں سے بھی نیچے گرجاتا ہے جانوروں میں حسد اور غرور نہیں ہوتا۔ انسان حسد بھی کرتا ہے تکبر بھی کرتا ہے عداوت بھی رکھتا ہے بغض میں مبتلا ہوجاتا ہے، رب کے آگے سرکشی کرتا ہے فطرت پہ قائم رہنے میں بھلائی ہے۔