قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَىٰ ظُهُورِهِمْ ۚ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ
خسارہ میں پڑگئے وہ جنہون نے اللہ کی ملاقات کو جھوٹ جانا ، یہاں تک کہ جب اچانک وہ گھڑی ان پر آئے گی ، کہیں گے افسوس ہم نے دنیا میں قصور کیا اور وہ اپنے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے ، سنتا ہے وہ بوجھ برا ہے جو اٹھاتے ہیں (ف ١) ۔
اللہ کی ملاقات کو جھٹلانے سے مراد: ایک انسان جب دنیا کی زندگی کو عزیز اورآخرت کو غیر ضروری سمجھتا ہے۔ اپنی دلچسپیوں پر نظر رکھتا ہے تو دنیا کے مشاغل میں اللہ کی ملاقات کو جھٹلانے والے جس خسارے اور نامرادی سے دوچار ہونگے اس آیت میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اپنی کوتاہیوں پر جس طرح وہ قیامت کے دن نادم ہوں گے اوربرائیوں کا بوجھ اپنے اوپر لادے ہونگے۔ پھر وہ حسرت ویا س سے پچھتائیں گے یعنی قیامت کی تیاری میں اور اُس کے برحق ہونے میں ہم سے جو کوتاہی ہوئی آج اس کا بوجھ ہم پر لاد دیا جائے گا، اور گناہوں کا بوجھ محض خیالی اور تصوراتی نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ بوجھ مثالی صورت میں بعض جانوروں کی شکل میں گنہگاروں کی پشتوں پر لاد دیا جائے گا جیسا کہ صحیح احادیث میں یہ صراحت موجود ہے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میں چین سے کیسے رہ سکتا ہوں جبکہ صُور پھونکنے والا فرشتہ منہ میں صور لیے اپنی پیشانی لٹکائے ہوئے اللہ کے حکم کا منتظر ہے کہ کب وہ صور پھونکے اس پر صحابہ کرام نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے موقعہ پر ہم کیا کریں۔آپ نے فرمایا ’’ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ وَنِعْمُ الْمُوْلیٰ وَنِعْمَ النَّصِیْرُ‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِيْنَ۔﴾ (النمل: ۸۷) ’’جس دن صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب آسمان والے اور زمین والے گھبرا اٹھیں گے،مگر جیسے اللہ تعالیٰ چاہے، اور سارے کے سارے عاجز و پست ہوکر اس کے سامنے ہونگے۔‘‘(ترمذی: ۳۲۴۳، مسند احمد: ۱/ ۳۲۶، ح: ۳۰۰۸)