سورة الانعام - آیت 19

قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ گواہی کس چیز کی بڑی ہے ؟ تو کہہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ، اور یہ قرآن میری طرف اتار ہے ، (ف ٢) ۔ تاکہ میں اس سے تم کو (اے اہل مکہ) اور جس کو یہ پہنچے اس کو ڈراؤں کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں ؟ تو کہہ میں گواہی نہ دوں گا ، تو کہہ وہی ایک معبود ہے ، اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سچی گواہی اللہ کی ہے: گواہی دو طرح کی ہوتی ہے ایک آنکھوں دیکھا حال کسی قاضی، جج یا کسی منصف کے سامنے بیان کرنا جسے ( Witness) کہتے ہیں۔ اور دوسرا یقین کامل کی بنا پر گواہی دینا جسے (Evidence) کہتے ہیں۔ ہم مسلمان اپنے یقین کامل کی بنا پر گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ کی گواہی اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر سچی ہے چونکہ اللہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ اس لحاظ سے یہ آنکھوں دیکھی شہادت ہے پھر وہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق و مالک ہے ایسا حقیقی علم کسی کو نہیں ہوسکتا۔ گواہی قیاس پر نہیں دی جاسکتی اس کے لیے حقیقی علم اور یقین کامل ہونا ضروری ہے۔ مشرکین مکہ بتاؤ تم اپنے معبودوں کی ایسی گواہی دے سکتے ہو اور اگر تم ایسی گواہی دے بھی دو تو میں کم از کم ایسی گواہی دینے کو تیار نہیں۔ آپ کی رسالت تا قیامت سب کے لیے ہے: کفار مکہ کے بعد جب یہود و نصاریٰ کی اکثریت نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا دیا تو کفار کہنے لگے بتاؤ اب تمہاری رسالت کی گواہی کون دیتا ہے تب یہ آیت نازل ہوئی۔ ’’وَاَوْحٰی اِلیٰ‘‘ اللہ کا کلام انسانوں اور رسولوں کے درمیان گواہی دینے والا ہے۔ رسولوں کا کام اللہ کا پیغام تمام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ حضرت ربیع بن انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اب جس کے پاس بھی یہ قرآن پہنچ جائے اور وہ سچا متبع رسول ہوتو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف اسی طرح بلائے جس طرح رسول اللہ نے دعوت دی۔ اور اس طرح ڈرائے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ڈرایا۔ (ابن کثیر: ۲؍ ۲۱۵) اس آیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تمام اقوام عالم کے لیے اور قیامت تک کے لیے ثابت ہوتی ہے۔