قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِّن قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ
ویسی باتیں تم سے پہلے لوگوں نے پوچھی تھیں پھر ان کے منکر ہوگئے تھے ۔
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ سوال کرنے سے بسا اوقات انسان کفر تک پہنچ جاتا ہے پہلے لوگوں نے بھی احکامات کی جزئیات کو پوچھا پھر انھوں نے اس پر عمل بھی نہ کیا مثلاً سورۂ بقرہ میں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو کتنے سوال کیے گئے حالانکہ پہلے اگر وہ کوئی گائے بھی ذبح کردیتے تو کوئی حرج نہیں تھا۔ حضرت صالح علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ پہاڑ سے اونٹنی نکال کر دکھاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا کردیا اور اونٹنی کے پانی پینے کا طریقہ بتادیا تو انھوں نے اونٹنی کے پاؤں کاٹ دیے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمائش کہ آسمان سے کھانا نازل کرو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال کہ ہمارے لیے کوئی بادشاہ مقرر کردو۔ جب طالوت کو بادشاہ مقرر کیا تو انھوں نے اُسے قبول نہ کیا۔ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جو میں چھوڑ دوں یعنی جس کا ذکر نہ کروں تم بھی اسکا ذکر نہ کرو۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی بنا پر تباہ ہوگئے۔ (بخاری: ۷۲۸۸، مسلم: ۱۳۳۷)