وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِّنْهُمْ ۚ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
اور خیال کیا کہ کچھ خرابی نہ ہوگی ، سو اندھے اور بہرے ہوگئے پھر خدا ان پر متوجہ ہوا اور معاف کردیا (تو) پھر ان میں بہت لوگ اندھے اور بہرے ہوگئے اور اللہ ان کے کام دیکھتا ہے ۔
انھوں نے گمان کیا کہ اب کوئی خرابی نہیں آئے گی، ا س ذہنی سوچ کی وجہ سے نہ وہ حق بات سنتے اور نہ دیکھتے تھے۔ انھوں نے سمجھ رکھا تھا کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں ہم جو بھی کرلیں ہم پر عذاب الٰہی نہیں آئے گا، اس عقیدہ نے انھیں ہر طرح کے جرائم پر دلیر بنادیا تھا۔ پھر ان پر بخت نصر کی صورت میں قہر الٰہی نازل ہو ا جس نے انکی سلطنت کوتہس نہس کردیا۔ بیشمار افراد کو قیدی بناکر اپنے ساتھ لے گئے وہ قید و بند کی سختیاں جھیلتے رہے۔ آخر اللہ کی طرف رجوع کیا اور اللہ نے ان کی خطائیں معاف کردیں۔ جب اللہ نے مہربانی فرمائی تو عیش و آرام میں پڑکر پہلے سے زیادہ کفر و سرکشی میں بڑھ گئے ۔ حضرت زکریا حضرت یحییٰ کو قتل کردیا، حضرت عیسیٰ کو سولی پر چڑھانے کی مقدور بھر کوشش کی اللہ سب دیکھ رہا ہے یہ جو کرتے ہیں۔