سورة المآئدہ - آیت 67

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تیرے رب سے تجھ پر نازل ہوا ، ان تک پہنچا دے ، اگر تو یہ نہ کرے تو تونے اس کا پیغام نہ پہنچایا اور خدا تجھے آدمیوں سے بچا لے گا بیشک خدا کافر قوم کو ہدایت نہیں (ف ١) کرتا ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

رسولوں کی سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری تھی کہ جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے بلاکم وکاست اور بلا خوف آپ لوگوں تک پہنچا دیں۔ اور آپ نے سب سے زیادہ توجہ اسی طرف دی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ’’جو شخص یہ گما ن کرے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چھپا لیا‘‘ اس نے یقیناً جھوٹ کہا۔ (بخاری: ۴۶۱۲) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی جب سوال کیا گیا کہ تمہارے پاس قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعے نازل شدہ کوئی بات ہے۔ تو انھوں نے قسم کھا کر نفی فرمائی البتہ قرآن کا فہم ہے جسے اللہ تعالیٰ کسی کو بھی عطا فرمادے۔ (بخاری: ۱۱۱) تبلیغ رسالت کا فریضہ: سیدنا جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حجة الوداع کے موقعہ پر خطبہ دینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تم کیا کہو گے‘‘ صحابہ نے عرض کیا ہم گواہی دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔ اور حق تبلیغ ادا کردیا اور خوب نصیحت و خیر خواہی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا ’’اے اللہ گواہ رہنا‘‘ ۔ (مسلم: ۱۲۱۸، بخاری: ۱۷۳۹) اللہ آپ کو محفوظ رکھے گا: رسول کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ خود لے لیتا ہے اور یہ حفاظت اللہ نے معجزانہ طریقہ سے بھی فرمائی اور دنیاوی اسباب کے تحت بھی، دنیاوی اسباب کے تحت اس آیت کے نزول سے بہت قبل اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابوطالب کے دل میں آپ کی طبعی محبت ڈالدی اور وہ آپ کی حفاظت کرتے رہے، ان کا کفرپر قائم رہنا بھی شاید انہی اسباب کا حصہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ مسلمان ہو جاتے تو شاید سرداران قریش کے دل میں ان کی وہ ہیبت و عظمت نہ رہتی جو ان کے ہم مذہب ہونے کی صورت میں آخر وقت تک رہی۔ پھر ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے بعض سرداران قریش کے ذریعہ پھر انصار مدینہ کے ذریعہ سے آپ کا تحفظ فرمایا، پھر جب یہ آیت نازل ہوگئی تو آپ نے حفاظت کے ظاہری اسباب یعنی پردے وغیرہ اٹھوادیے، اس کے بعد بار بار سنگین خطرات پیش آئے لیکن اللہ نے حفاظت فرمائی آپ پرقریش مکہ، یہود اور منافقوں کی طرف سے تقریباً سترہ بار قاتلانہ حملے ہوئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی اور ایسے کافروں کو ذلیل و رسوا کیا۔