يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے اہل کتاب : ہمارا رسول (محمد ﷺ) بیان کو تمہاری طرف اس وقت آیا ہے جبکہ رسول آنے موقوف ہوگئے تھے ، تاکہ تم (یہ) نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی خوشی اور ڈر سنانے والا نہیں آیا پس تمہارے پاس خوشی اور ڈر سنانے والا آگیا اور اللہ ہر شے پر قادر ہے ۔ (ف ١)
اہل کتاب کو نبی آخرالزماں کا انتظار: بنی اسرائیل میں ایک ہی زمانہ میں متعدد انبیاء مبعوث ہوتے رہے، دینی قیادت اور دنیاوی قیادت بھی انہی کے پاس تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبوت کا سلسلہ کم و بیش چھ سو سال تک بند رہا۔ اس کے بعد نبی آخرالزماں مبعوث ہوئے یہودی اور عیسائی انتظار میں تھے کہ جب نبی آخرالزماں آئے گا تو ہم ان کے ساتھ مل کر مشرکین کو شکست دیں گے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں تشریف لے آئے۔ یہود نے ان کو پہچان لینے کے بعد صرف اس بنا پر انکار کردیا کہ آپ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔ انہی یہود کو اللہ تعالیٰ مخاطب کرکے فرمارہے ہیں کہ جس بشیر و نذیر کا تمہیں انتظار تھا وہ آچکا، لہٰذا اگر اب تم نے انکار کیا تو خوب جان لو کہ اللہ تمہیں اس جرم کفر کی سزا دینے پر قادر ہے۔