لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا
مسیح (علیہ السلام) خدا کا بندہ ہونے سے ہرگز انکار نہیں کریگا اور نہ مقرب فرشتے ہی ‘ اور جو کوئی اس کی بندگی سے انکار کرے گا اور تکبر کرے گا تو خدا ان سب کو اپنی طرف (ف ١) اکٹھا جمع کرے گا ۔
یہ مسیح حضرت عیسیٰ ابن مریم ہیں انھیں اللہ کی بندگی سے عار محسوس نہ ہوتی تھی اللہ کے مقرب فرشتے رب کی بندگی، غلامی کرنے سے انکار نہیں کرتے، بندگی اللہ کی غلامی ہے یعنی ایک اللہ کی طرف دیکھنا اور اپنی نظروں کو غلام بنانا، انسان کی نظر کسی کے آگے نہ اٹھے بلکہ صرف اللہ پر رکھے اور اُسی سے اُمیدیں رکھے۔ مسیح اللہ کی بندگی کو عار نہیں سمجھتے: حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’مسیح کو اس بات سے ہرگز انکار نہیں کہ وہ اللہ کا بندہ ہے نہ فرشتوں کو جو اس کی بندگی سے انکار کریں گے انھیں اللہ ہی کے پاس لوٹنا ہے۔‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کی گواہی خود دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آئینہ دکھایا کہ اللہ کے مقرب فرشتے ہوں یانبی جو اللہ کو پہچانتا ہے وہ اس کی بندگی سے انکار نہیں کرتا۔ بندگی کرکے اللہ سے تعلق کیسے جڑتا ہے: بندگی یہ ایک اللہ کی غلامی ہے، ایک اللہ کی طرف دیکھنا اور ساری امیدیں اُسے سے وابستہ کرنا ہے حضرت مسیح کو رب کے ساتھ بندگی کا رشتہ بنانے میں عار محسوس نہیں ہوا، اس کی یاد، سوچ، ہر کام قلب پر حاوی رہیں، ایک اللہ کے آگے حاضری کا خوف ہو۔ انسان تو لباس بھی ایسا پہنتا ہے جس سے قبولیت عامہ ہو۔ ایک کہاوت ہے: ’’کھاؤ من بھاتا، پہنو جگ بھاتا‘‘ جہاں راہنمائی کا مرکز بدل جائے وہاں شریک پیدا ہوجاتا ہے۔ غلامی کے طور طریقے سیکھنے کے لیے سورہ فاتحہ سے راہنمائی لینی ہے۔ ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ غلامی کی حقیقت کو سمجھے بغیر عبودیت نہیں ہوسکتی۔ مصیبت کے وقت انسان اللہ کی حقیقت کو زیادہ جان لیتا ہے کہ ہم کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ جو عار کرتا ہے: (۱) وہ تکبر کرتا ہے۔ (۲) خواہشات کا غلام بن جاتا ہے۔ (۳)انسان انسانوں کا غلام بن جاتا ہے۔ (۴) انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کا غلام بن جاتا ہے۔ انجام: دردناک عذاب ہوگا، کوئی کارساز مددگار نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے حضور جمع کریں گے، آج حضرت عیسیٰ کی پیروی کرنے والے اللہ کی غلامی نہیں کر رہے۔