ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ
پھر اس دن تم سے ضرور نعمت کی حقیقت پوچھی جائیگی
نعمتوں كے بارے میں باز پرس ہوگی: انسان كو اللہ نے لا تعداد نعمتوں سے نوازا ہے۔ (وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا) (ابراہیم: ۳۸) یعنی ’’تم پر اللہ كی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں كہ اگر تم انہیں شمار كرنا چاہو تو شمار بھی نہیں كر سكتے۔‘‘ جیسے آنكھ، كان، دل، دماغ، صحت، مال و دولت اور اولاد وغیرہ یعنی جوانی، صحت كو تم نے كس قسم كی كوششوں میں صرف كیا۔ مال ودولت كے بارے میں سوال ہوگا كہ ان كو كن ذرائع سے حاصل كیا اور خرچ كن كاموں میں كیا، یعنی ان کا مصرف جائز تھا یا ناجائز؟ آزاد کردہ غلام حضرت ابو طیب كا بیان ہے كہ رات كو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دی، میں نكلا پھر حضرت ابوبكر رضی اللہ عنہ كو بلایا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ كو بلایا پھر كسی انصاری كے باغ میں گئے اور اس سے فرمایا كہ لاؤ بھائی كھانے كو دو وہ انگور كے خوشے اٹھا لائے اور آپ كے سامنے ركھ دئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ كے ساتھیوں نے كھائے پھر فرمایا: ٹھنڈا پانی پلاؤ، وہ لائے آپ نے پیا، پھر فرمانے لگے قیامت كے دن اس كی باز پرس ہوگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ خوشہ اٹھا كر زمین پر دے مارا اور كہنے لگے اس كے بارے میں بھی خدا كے ہاں پرسش ہوگی، آپ نے فرمایا: ہاں صرف تین چیزوں كی پرسش نہیں ہوگی، (۱) پردہ پوشی كے لائق كپڑا۔ (۲) بھوك روكنے كے قابل ٹكڑا۔ (۳) اور سردی گرمی میں سر چھپانے كے لیے مكان۔ (مسند احمد: ۵/ ۸۱) موضوع اور مضمون: یہ ایك جامع اور بے نظیر سورت ہے۔ اس میں بالكل دو ٹوك طریقے سے بتا دیا گیا ہے كہ انسان كی فلاح كا راستہ كونسا ہے اور تباہی و بربادی كا كونسا۔ طبرانی کی روایت میں ہے كہ دو صحابیوں كا یہ دستور تھا كہ جب ملتے ایك اس سورت كو پڑھتا دوسرا سنتا پھر سلام كر كے رخصت ہوتے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں كہ لوگ اگر اس سورت كو غور و تدبر سے پڑھیں اور سمجھیں تو صرف یہی ایك سورت كافی ہے۔