سورة النسآء - آیت 113

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اگر خدا کا فضل اور رحم تجھ پر نہ ہوتا تو ان میں کا ایک فریق تجھے گمراہ کرنے کا قصد کر ہی چکے تھے حالانکہ وہ اپنی ہی جانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، اور خدا نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تجھے وہ بات سکھائی ہے جو تونہ جانتا تھا اور تجھ پر خدا کا بڑا فضل ہے ۔ (ف ٣)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت یہ تھی کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اصل صورت حال سے مطلع فرمادیا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مجرم بچ جاتا اور ایک بے قصور مجرم قرار پاتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص حفاظت و نگرانی ہے جو انبیاء علیہم السلام پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور رحمت ہے۔ بنو ابیرق کے جو لوگ آپ کوبہکا کر اپنے حق میں فیصلہ کرانا چاہتے تھے۔ وہ اپنی ہی عاقبت خراب کررہے تھے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اور اللہ کے ہاں مجرم وہ تھے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۔دوسرا احسان جو آپ صلی اللہ پر کتاب نازل فرما کر اور حکمت (سنت) عطا فرماکر اور ضروری باتوں کا علم دے کر فرمایا گیا۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿(وَ كَذٰلِكَ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِيْمَانُ ﴾ (الشوریٰ: ۵۲) ’’اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف (قرآں لے کر) ایک فرشتہ اپنے حکم سے تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْا اَنْ يُّلْقٰۤى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ﴾ (القصص: ۸۶) ’’اور تجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تجھ پر کتاب اُتاری جائے گی، مگر تیرے رب کی رحمت سے (یہ کتاب) اُتاری گئی۔‘‘ ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فضل و احسان فرمایا اور کتاب و حکمت بھی عطا فرمائی۔ ان کے علاوہ دیگر بہت سی باتوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم دیا گیا جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے خبر تھے۔ یہ بھی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہے۔ کیونکہ جو خود عالم الغیب ہو اُسے تو کسی اور سے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، اور جسے دوسرے سے معلومات حاصل ہوں وحی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے وہ عالم الغیب نہیں ہوتا۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ (انصاری) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ’’مجھے پانچ چیزیں ایسی ملی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پیغمبر کو نہیں ملیں۔ (۱) ایک ماہ کی مسافت پر دشمن پر میرا رعب طاری رہتا ہے۔ (۲) ساری زمین میرے لیے مسجد اور پاک بنائی گئی ہے۔ لہٰذا میری امت کا ہر شخص جہاں نماز کا وقت آئے نماز پڑھ لے۔ (۳) اموال غنائم میرے لیے حلال ہوئے جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے جائز نہیں تھے۔ (۴) شفاعت کبریٰ (قیامت کے دن) ملی۔ (۵)پہلے ہر نبی کسی خاص قوم کیطرف بھیجا جاتا تھا جبکہ میں تمام لوگوں کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ (بخاری: ۳۳۵)