سورة الملك - آیت 22

أَفَمَن يَمْشِي مُكِبًّا عَلَىٰ وَجْهِهِ أَهْدَىٰ أَمَّن يَمْشِي سَوِيًّا عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

بھلا وہ جو اپنے منہ پر اوندھا چلتا ہے زیادہ ہدایت پر ہے یا وہ جو برابر سیدھا ہوکر راہ راست پر چلتا ہے ؟۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

كافر كی مثال ایسی ہے جیسے كوئی شخص كمر كبڑی كر كے، سر جھكائے نظریں نیچی كیے چلا جا رہا ہے نہ راہ دیكھتا ہے اور نہ اسے معلوم ہے كہ كہاں جا رہا ہے، بلكہ حیران وپریشان راہ بھولا، ہكا بكا ہے۔ اور مومن كی مثال ایسی ہے جیسے كوئی شخص سیدھی راہ پر سیدھا كھڑا چل رہا ہے۔ راستہ خوب صاف اور بالكل سیدھا ہے یہ شخص خود اسے بخوبی جانتا ہے۔ اور برابر صحیح طور پر اچھی چال سے بھی چل رہا ہے۔ یہی حال ان كا قیامت كے دن ہوگا كہ كافر تو اوندھے منہ جہنم كی طرف جمع كیے جائیں گے اور مسلمان عزت كے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے۔ جیسے سورئہ بنی اسرائیل (۹۷) میں ہے: ’’ہم انھیں قیامت والے دن منہ كے بل اكٹھا كریں گے۔‘‘ مسند احمد میں روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت كیا گیا كہ حضور لوگ منہ كے بل چلا كر كس طرح حشر كیے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے پیروں كے بل چلایا ہے وہ منہ كے بل چلانے پر بھی قادر ہے۔ (بخاری: ۴۷۶۰، مسند احمد: ۳/۱۶۷)