وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا
اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین اور قرابتیوں ‘ اور یتیموں اور محتاجوں سے اور قریبی ہمسایہ ‘ اور اجنبی ہمسایہ اور پاس بیٹھنے والے اور مسافر اور لونڈی غلام سے نیکی کرو ، خدا کسی اترانے والے اور بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا (ف ١)
پہلا حکم۔ ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ شرک ہی سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر وعید سنادی ہے کہ یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كہ جو شخص زمین بھر گناہوں کے ساتھ مجھے ملے جبکہ اس نے میرے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہ بنایا ہو تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ اس کو ملوں گا۔‘‘ (مسلم: ۲۶۸۷) والدین سے سلوک: والدین سے تمہارا سلوک ایسا ہونا چاہیے جیسے غلام کا اپنے آقا سے ہوتاہے۔ ان کے ساتھ ادب و انکساری کے ساتھ پیش آؤ۔ ان کے لیے حق تعالیٰ سے رحمت اور مغفرت کی دعا بھی کرتے رہو۔ قرآن کریم میں اپنے ذکر کے ساتھ والدین سے بہتر سلوک کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمام کائنات، جن و انس اور ہر جاندار و بے جان کی پرورش کرنے والا ہے۔ اس کے بعد ظاہر سبب اولاد کی پرورش کا والدین کو بنایا۔ اور جتنی مشکل سے انسان کا بچہ پلتا ہے کسی جانور کا نہیں پلتا۔ علاوہ ازیں بڑھاپے میں والدین اولاد سے بہتر سلوک کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ وہ کما بھی نہیں سکتے، مزاج بھی طبعی طور پر چڑچڑا ہوجاتا ہے۔ انھیں محبت و شفقت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ’’اللہ کو سب سے زیادہ کونسا عمل پسند ہے‘‘؟ فرمایا ’’نماز کی بروقت ادائیگی‘‘ میں نے پوچھا پھر کونسا ’’پھر فرمایا ’’ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا۔‘‘ میں نے پوچھا پھر کونسا’’فرمایا! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ (بخاری: ۷۵۳۴) قریبی رشتہ داروں سے سلوک: قریبی رشتہ داروں سے بہترین سلوک کرنا بہت بڑا نیکی کا کام ہے اور ان سے تعلقات بگاڑنا اور خراب کرنا یا توڑنا کبیرہ گناہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمر لمبی ہو اُسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔‘‘ (بخاری: ۲۰۶۷) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ (بخاری: ۵۹۸۴) یتیموں سے سلوک: یتیم کی پرورش کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کا سرپرست جنت میں اس طرح ہونگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی اور درمیانی انگلی ذرا کھول کر اشارہ کیا۔‘‘ (بخاری: ۶۰۰۵) اسی طرح مسکینوں سے سلوک کی بھی بہت تاکید آتی ہے۔ ہمسائے سے سلوک: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے، وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ پہنچائے ۔‘‘(بخاری: ۵۱۸۵) ایک روایت میں آتا ہے: ’’جس کی ایذا دہی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (مسلم: ۴۶) اجنبی ہمسائے ہم نشین اور مسافرسے سلوک: (۱) ایسا پڑوسی جس سے قرابت داری نہ ہو اس سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو اس سے بھی حسن سلوک کیا جائے ۔ (۲) ہم نشین سے مراد: رفیق سفر، شریک کار، اور وہ شخص جو فائدے کی اُمید پر کسی سے دوستی اختیار کرلے۔ اس سے حسن سلوک کیا جائے۔ (۳) مسافر سے سلوک: اس کا ذکر اس حدیث میں آتا ہے: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں جارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا ’’جس کے پاس فاضل سواری ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں جس کے پاس فاضل کھانا ہے وہ اُسے دے دے جس کے پاس کھانا نہیں، غرضیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ایک ایک قسم کا جدا جدا ذکر کیا۔ حتی کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ زائد مال میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔ (مسلم: ۱۷۲۸) لونڈی غلاموں سے بہتر سلوک: سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے اور سیدنا بلال حبشی کے درمیان سخت کلامی ہوئی تو میں نے اُسے ماں کی عار دلائی (یعنی کالی ماں کے کالے بیٹے کہہ دیا۔) تو سیدنا بلا ل نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادی۔ آپ نے مجھے فرمایا ’’ابوذر! تم ایسے انسان ہو جس میں جاہلیت ابھی باقی ہے میں نے کہا’’اتنی بڑی عمر گزرجانے کے بعد بھی باقی ہے‘‘؟ فرمایا ’’ہاں!یہ تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں جنھیں اللہ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے تو جس کا بھائی اللہ اس کے تحت کردے تو اُسے چاہیے کہ اُسے وہی کچھ کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی کچھ پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ ایسا کام کرنے کو نہ کہے جو اُس پر بھاری ہو اور اگر ایسا کام کہے تو خود بھی اس کی مدد کرے۔‘‘ (بخاری: ۶۰۵۰) فخر و غرور اور تکبر: یہ باتیں اللہ کو سخت نا پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور جن جن لوگوں سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے اس پر عمل وہی شخص کرسکتا ہے جس کا دل تکبر سے خالی ہو، مغرور اورمتکبر شخص نہ صحیح معنوں میں اللہ کی عبادت کرسکتا ہے اور نہ اپنوں اور بیگانوں سے حسن سلوک کرسکتا ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا۔ (مسلم: ۹۱)