وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
جو کچھ والدین اور قرابتی چھوڑیں ‘ اس میں ہر کسی کے وارث ہم نے مقرر کردیئے ہیں اور جن سے تم نے اقرار باندھا ہے ان کا حصہ انہیں دو ۔ بےشک ہر شے خدا کے روبرو ہے (ف ١)
عربوں میں دستور تھا کہ جن لوگوں کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کے عہد و پیمان ہوجاتے تھے، وہ ایک دوسرے کی میراث کے حقدار بھی بن جاتے تھے، اسی طرح جسے بیٹا بنالیاجاتا وہ بھی منہ بولے باپ کا وارث قرار پاتا تھا۔ انصار اور مہاجرین دینی اخوت کی بنا کر حصہ دار بن جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قانون کو ختم کرکے حقیقی وارث کا قانون نافذ کردیا۔ کہ وراثت قرآن میں مذکورہ قاعدے کے مطابق رشتہ داروں میں تقسیم ہونی چاہیے جو ہم نے مقرر کردیا ہے۔ البتہ جن لوگوں سے تمہارے عہد و پیمان ہوں ان کو اپنی زندگی میں تم جو چاہو دے سکتے ہو۔ ترکہ میں ان کا حصہ نہ ہوگا البتہ وصیت کا حکم باقی ہے۔