أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ
جہاں تم سکونت رکھتے ہو وہاں ان مطلقہ عورتوں کو اپنے مقدور کے مطابق مکان دو اور انہیں تنگ نے ضرر نہ پہنچاؤ اور اگر حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرو ۔ یہاں کہ وہ پیٹ کا بچہ جن لیں پھر اگر وہ تمہاری خاطردودھ پلائیں تو ان کو ان کی مزدور اور موافقت رکھو آپس میں ساتھ اچھی طرح آپس میں ضد کرنے لگو ۔ تو دوسری عورت مرد کے کہنے سے دودھ پلائے گی
عدت كے دوران رہائش اور نان نفقہ خاوند كے ذمہ ہے: مطلقہ عورت كی عدت كے دوران اس كی رہائش اور اس كی خوراك وپوشاك كا سارا خرچ طلاق دینے والے مرد كے ذمہ ہے۔ اور یہ اپنی طاقت كے مطابق ہے۔ یہاں تك كہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر زیادہ وسعت نہ ہو تو اپنے ہی مكان میں ایك كونہ اسے دے دے۔ (تفسیر طبری: ۱۸/ ۲۰۷) اس میں حكمت یہی ہے كہ قریب رہ كر عدت گزارے گی تو خاوند كا دل شاید پسیج جائے اور رجوع كرنے كی رغبت اس كے دل میں پید اہو جائے، خاص طور پر اگر بچے بھی ہوں تو پھر رغبت اور رجوع كا قوی امكان ہے۔ مگر افسوس ہے كہ مسلمان اس ہدایت پر عمل نہیں كرتے جس كی وجہ سے اس حكم كے فوائد سے بھی وہ محروم ہیں، ہمارے معاشرے میں طلاق كے ساتھ ہی عورت كو فوراً اچھوت بنا كر گھر سے نكال دیا جاتا ہے یا بعض دفعہ لڑكی والے اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں یہ رواج قرآن كریم كی صریح تعلیم كے خلاف ہے۔ ایذا نہ دو: یعنی واجبی خرچ نہ دے كر یا دوسرے طریقوں سے اس طرح تنگ نہ كر ڈالو كہ وہ از خود نكلنے اور تمہارا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔ اور تم یہ سمجھنے لگو كہ جب وہ خود ہی چلی گئی ہے تو تم پر اس كا كچھ الزام نہیں۔ اور اگر طلاق دینے كے بعد وہ تمہارے بچے كو دودھ پلائے گی تو اس كی اجرت تمہارے ذمہ ہے۔ بیوہ كا نان ونفقہ واجب نہیں: حاملہ خواہ مطلقہ ہو یا بیوہ اس كی عدت وضع حمل تك ہے، خواہ یہ چند دن بعد ہو یا چھ سات ماہ تك لمبی ہو جائے۔ اس دوران اگر مطلقہ ہے تو اس كے سكنی اور نفقہ كا ذمہ دار اس كا خاوند ہوگا اور اگر بیوہ ہے۔ تو اس كا سكنی تو مرد كے لواحقین كے ذمہ ہوگا۔ اور وہ عدت اپنے خاوند كے گھر میں گزارے گی، لیكن نفقہ كی حقدار نہ رہے گی، كیونكہ اب وہ وراثت كی حق دار بن گئی ہے۔ وہ اپنے حصے میں سے اپنی ذات پر خرچ كرے گی یہ نہیں ہوگا كہ پہلے خاوند كے مشتركہ ورثہ سے اس كا نفقہ بھی دیا جائے اور پھر وراثت كا حصہ بھی۔ دودھ پلانے سے متعلقہ مسائل: یعنی بچے كا باپ یا ولی ہو اسے چاہیے كہ بچے پر اپنی وسعت كے مطابق خرچ كرے، تنگی والا اپنی طاقت كے مطابق دے، طاقت سے بڑھ كر اللہ تعالیٰ كسی كو تكلیف نہیں دیتا۔ مطلب ان ہدایات كا یہ ہے كہ بچے كی ماں اور بچے كا باپ دونوں ایسا مناسب رویہ اختیار كریں كہ ایك دوسرے كو تكلیف نہ پہنچے، اور بچے كو دودھ پلانے كا مسئلہ سنگین نہ ہو۔ جیسا كہ سورئہ البقرہ (۲۳۳) میں ہے: ﴿لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَ لَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ﴾ ’’نہ ماں كو بچے كی وجہ سے تكلیف پہنچائی جائے اور نہ باپ كو۔‘‘