يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا
اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو ف 1 تو انہیں عدت کے وقت طلاق دو ۔ اور عدت گنتے رہو ۔ اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور وہ خود بھی نہ نکلیں ۔ مگر جب وہ صریح بےحیائی کا کام کریں ۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے بڑھا ۔ اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔ اس کو خبر نہیں کہ شاید اللہ طلاق کے بعد کوئی نئی بات نکالے
طلاق كے مسائل: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب آپ كے شرف ومرتبت كی وجہ سے ہے، ورنہ حكم تو امت كو دیا جا رہا ہے۔ اور امت كے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كا اسوہ ہی كافی ہے۔ طَلَّقْتُمُ كا مطلب ہے جب طلاق دینے كا ارادہ كر لو۔ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا كو طلاق دی تو وہ اپنے میکے آگئیں اس پر یہ آیت اتری، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا كہ ان سے رجوع كر لو۔ وہ بہت زیادہ روزہ ركھنے والی اور بہت زیادہ نماز پڑھنے والی ہیں اور وہ یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی بیوی ہیں اور جنت میں بھی آپ كی ازواج میں داخل ہیں۔ (حاكم: ۴/ ۱۵) یہی روایت مرسلاً تفسیر ابن جریر میں بھی آئی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا كو طلاق دی پھر رجوع كر لیا۔ (ابوداود: ۲۲۸۳، نسائی: ۳۵۹۰) عدت كے دنوں میں طلاق دینا: اس میں طلاق دینے كا طریقہ اور وقت بتلایا گیا ہے۔ یعنی (عدت كے آغاز میں) طلاق دو۔ یعنی جب عورت حیض سے پاك ہو جائے تو اس سے ہم بستری كیے بغیر طلاق دو۔ یہی حالت طہر اس كی عدت كا آغاز ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی حالت حیض میں طلاق نہ دو، نہ اس طہر میں طلاق دو جس میں جماع ہو چكا ہو بلكہ اس وقت تك چھوڑ دے جب حیض آجائے پھر نہا لے تب ایك طلاق دے۔ (مسلم: ۱۴/ ۱۴۷۱) یعنی حیض كی حالت میں یا طہر میں ہم بستری كرنے كے بعد طلاق دینا غلط طریقہ ہے۔ اس طریقہ كو فقہاء طلاق بدعی سے اور پہلے (صحیح) طریقے كو طلاق سنت سے تعبیر كرتے ہیں، اس كی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے۔ كہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیض كی حالت میں اپنی بیوی كو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناك ہوئے اور انھیں اس سے رجوع كرنے كے ساتھ حكم دیا كہ حالت طُہر میں طلاق دینا اور اس كے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت سے استدلال فرمایا۔ (بخاری: ۴۹۰۸) عدت كا حساب ركھو: یعنی اس كی ابتدا اور انتہا كا خیال ركھو، تاكہ عورت اس كے بعد نكاح ثانی كر سكے۔ یا اگر تم ہی رجوع كرنا چاہو۔ (پہلی اور دوسری طلاق كی صورت میں) تو عدت كے اندر رجوع كر سكو۔ حضرت عكرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں عدت سے مراد طہر ہے قرئ سے مراد حیض ہے یا حمل كی حالت میں جب حمل ظاہر ہو، جس طہر میں مجامعت كر چكا اس طہر میں طلاق نہ دے نہ معلوم حاملہ ہے یا نہیں۔ اسی سے فقہاء علماء نے احكام طلاق کا استنباط کیا ہے اور طلاق كی دو قسمیں ہیں۔ طلاق سنت اور طلاق بدعت: طلاق سنت تو یہ ہے كہ طہر یعنی پاكیزگی كی حالت میں جماع كرنے سے پہلے طلاق دے دے، یا حالت حمل میں طلاق دے۔ اور بدعی طلاق یہ ہے كہ حالت حیض میں طلاق دے یا طہر میں دے لیكن مجامعت كر چكا ہو۔ اور معلوم نہ ہو كہ حمل ہے یا نہیں؟ عورت كو گھر سے نہ نكالو: طلاق دیتے ہی عورت كو اپنے گھر سے مت نكالو۔ بلكہ عدت کے دوران اسے گھر میں ہی رہنے دو۔ اور اس وقت تك رہائش اور نان نفقہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ اور نہ عورت خود اس گھر سے نكلے الا یہ كہ كوئی بہت ہی ضروری معاملہ ہو۔ پھر فرمایا كہ اگر عورت بدكاری كا ارتكاب كر بیٹھے یا بدزبانی یا بداخلاقی كا مظاہرہ كرے جس سے گھر والوں كو تكلیف ہو تو ان صورتوں میں بیشك خاوند كو جائز ہے كہ اسے اپنے گھر سے نكال باہر كرے یہ اللہ كی مقرر كردہ حدیں ہیں۔ اس كی شریعت اور اس كے بتلائے ہوئے احكام ہیں، جن سے تجاوز خود اپنے آپ پر ہی ظلم كرنا ہے كیونكہ اس كے دینی اور دنیوی نتائج خود تجاوز كرنے والے كو ہی بھگتنا پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ كوئی نئی بات پیدا كر دے: یعنی مطلقہ عورت كی مرد كے دل میں رغبت پیدا كر دے اور وہ رجوع كرنے پر آمادہ ہو جائے جیسا كہ پہلی اور دوسری طلاق كے بعد خاوند كو عدت كے اندر رجوع كرنے كا حق حاصل ہے اس لیے بعض مفسرین كی رائے ہے كہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صرف ایك طلاق دینے كی تلقین كی اور بیك وقت تین طلاقیں دینے سے منع فرمایا ہے كیونكہ اگر وہ ایك ہی وقت میں تین طلاقیں دے دے (اور شریعت اسے جائز كر كے نافذ بھی كر دے) تو پھر یہ كہنا بے فائدہ ہے۔ كہ شاید اللہ تعالیٰ كوئی نئی بات پیدا كر دے۔ (فتح القدیر)