إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ
بےشک آسمان کی پیدائش اور رات دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لئے نشان ہیں (ف ١)
یعنی جو لوگ کائنات کی تخلیق، اور کائنات کے دیگر اسرار ورموز پر غور کرتے ہیں تو انھیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرمانرواکی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی وسیع اور طویل و عریض کائنات کا یہ لگا بندھا نظام، جس میں ذرا خلل واقع نہیں ہوتا، یقینا اس کے پیچھے ایک ذات ہے جو اسے چلا رہی ہے۔ اس کی تدبیر کررہی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات۔ پھر اس اعترافِ حقیقت کے نتیجہ میں ان کے بدن کا رؤاں رؤاں محبت الٰہی میں سرشار ہوکر اس کی حمد و ثناء کرنے لگتا ہے وہ اٹھتے، بیٹھتے، اور کروٹوں پر لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت سے لیکر آخری سورت تک رات کو جب تہجد کے لیے اٹھتے تو پڑھتے پھر وضو کرتے۔(بخاری۴۵۶۹/مسلم۷۶۳)