سورة ق - آیت 17

إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جبکہ وہ لینے والے داہنے بائیں بیٹھے لیتے رہتے ہیں ۔ (یعنی انسان) کو کلمہ زبان سے نکالتا ہے دو فرشتے اس کو لکھے جاتے ہیں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

رگ جان سے بھی قریب ہیں: ورید: شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے۔ جس کے کٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے انسان کے کندھے تک ہوتی ہے۔ اس قرب سے مراد قرب علمی ہے یعنی علم کے لحاظ سے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ (نحن) سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی ہمارے فرشتے رگ جاں سے بھی قریب ہیں کیوں کہ انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں وہ انسان کی ہر بات اور ہر عمل کو نوٹ کرتے ہیں۔ امام شوکانی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہم انسان کے تمام احوال کو جانتے ہیں، بغیر اس کے کہ ہم فرشتوں کے محتاج ہوں۔ جن کو ہم نے انسان کے اعمال و اقوال لکھنے کے لیے مقرر کیا ہے۔ یہ فرشتے تو ہم نے صرف اتمام حجت کے لیے مقرر کیے ہیں۔ بعض کے نزدیک دو فرشتوں سے مراد ایک نیکی اور دوسرا بدی لکھنے والا ہے اور بعض کے نزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔ رات کے دو فرشتے الگ اور دن کے دو فرشتے الگ۔ (فتح القدیر)