مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں ، کافروں پر بہت سخت ہیں اور آپس میں نرم دل ہیں ، تو انہیں رکوع اور سجدہ میں اللہ سے فضل اور رضامندی طلب کرتے دیکھے گا ۔ سجدہ کے اثر سے ان کی پہچان ان کے چہروں سے ہوتی ہے ۔ یہ صفت ان کی تو راۃ میں ہے اور انجیل میں ان کی صفت ایسی ہے جیسے کھیتی جس نے اپنی سوئی (ف 1) نکالی ۔ پھر اس کی کمر مضبوط کی ۔ پھر موٹی ہوگی ۔ پھر اپنی نال پر کھڑی ہوگئی کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے تاکہ ان سے کافروں کا جی جلائے ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
ان آیات میں پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و ثنا بیان ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بر حق رسول ہیں پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کی صفت و ثنا بیان ہوئی کہ وہ مخالفین پر سختی کرنے والے ہیں جیسے سورہ مائدہ (۵۴) میں ارشاد فرمایا: ﴿اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ﴾ ’’مومنوں کے سامنے نرم کفار کے مقابلے میں گرم۔‘‘ سورہ توبہ (۱۲۳) میں فرمایا: ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً﴾ ایمان والو! اپنے پاس کے کافروں سے جہاد کرو؟ وہ تم میں سختی محسوس کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مومن، مومن کے لیے مثل دیورا کے ہے۔ جس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت پہنچاتا ہے اور مضبوط کرتا ہے۔ پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں ملا کر بتلائیں ہے۔ (بخاری: ۶۰۲۶) شب بیداری عبادت گزاری: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے چہروں کو دیکھ کر ہی یہ معلوم ہو جاتا تھا کہ یہ لوگ شب بیدار، عبادت گزار اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ ہیں پس جس کی نگاہ ان کے پاک چہروں پر پڑتی تھی اسے ان کی پاکبازی جچ جاتی تھی۔ اسلام کے پودے کو پروان چڑھانے والی جماعت: ان کی مثال انجیل میں مانند کھیتی کے بیان کی گئی ہے۔ جو اپنا سبزہ نکالتی ہے پھر اسے مضبوط اور قوی کرتی ہے۔ یعنی مسلمان پہلے صرف ایک تھا اور وہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس جو اپنی نبوت پر سب سے پہلے ایمان لائے۔ پھر ایک سے دو ہوئے دو سے تین، تین سے سات اسی طرح رفتہ رفتہ اسلام کا پودا زمین سے باہر نکل آیا۔ باہر نکلنے کے بعد اس پر باد مخالف کی ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں۔ جو آہستہ آہستہ مظالم کی تیز آندھیوں میں تبدیل ہو گئیں۔ مگر یہ پودا مخالف ہواؤں کے باوجود اپنی جگہ پر قائم رہا۔ پھلتا پھولتا اور بڑھتا رہا۔ حتی کہ فتح مکہ کے دن یہ پودا ایک مضبوط اور تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ جوں جوں یہ پودا بڑھ رہا تھا مخالف قوتیں اسے دیکھ کر جل بھن جاتی رہیں۔ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ اور ان کی روز افزوں قوت و طاقت، کافروں کے لیے غیض و غضب کا باعث تھی۔ اس لیے کہ اس سے اسلام کادائرہ پھیل اور کفر کا دائرہ سمٹ رہا تھا۔ اس پوری آیت کا ایک ایک جز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت و فضیلت، اخروی مغفرت اور اجر عظیم کو واضح کر رہا ہے۔ اس کے بعد بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان میں شک کرنے والا مسلمان ہونے کا دعویٰ کرئے تو اسے کیوں کر دعویٰ مسلمانی میں سچا سمجھا جاسکتا ہے۔ الحمد للہ سورہ الفتح كی تفسیر مکمل ہوئی۔