أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
بھلا دیکھ تو جس نے اپنی خواہش (ف 1) کو اپنا معبود ٹھہرایا اور جانتا بوجھتا اللہ نے اسے گمراہ کیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگائی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈالا پس اللہ کے بعد کون ہے کہ اسے ہدایت کرے ؟ پھر کیا تم سوچتے نہیں ؟
اپنی خواہشات کو معبود بنانا: یہ بھی وہی شخص ہو سکتا ہے جسے اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کا یقین نہ ہو۔ ایسے شخص کی زندگی کا مقصد صرف یہی رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرتا جائے۔ کوئی اخلاقی پابندی یا شریعت کی عائد کردہ پابندیاں قبول نہ کرے۔ ایسا شخص نہ اللہ کے اوامر کی تعمیل کرنا گوارا کرتا ہے اور نہ نواہی سے اجتناب کر سکتا ہے۔ وہ تو ظلم و عصیان میں شتر بے مہار کی طرح آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ علم گمراہی کا سبب کیسے بنتا ہے: (اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ) کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اللہ کے ازلی علم میں یہ بات طے شدہ تھی کہ وہ گمراہ ہو گا۔ تو اللہ نے اسے اسی گمراہی کے راستے پر چلا دیا۔ جس پر وہ چل رہا تھا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص خیر و شر کی پوری تمیز اور اس کا علم رکھتا تھا۔ لیکن جب وہ اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ گیا تو اللہ نے اسے اس کے علم کے باوجود گمراہ کر دیا۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے منکرین اور دہریوں کا بھی ایک فلسفہ ہوتا ہے۔ جو انہیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اللہ بھی ایسے لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور چوتھا یہ کہ سب مذہبی فرقوں کے بانی عموماً عالم اور ذہین لوگ ہی ہو ا کرتے ہیں۔ جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگ کر کتاب و سنت میں تاویل کر کے اپنا نظریہ کشید کر لیتے ہیں۔ دل پر مہر: یعنی اس کے کانوں پر مہر ہے کہ نفع دینے والی بات سنتا ہی نہیں۔ اس کے دل پر مہر ہے کہ ہدایت کی بات دل میں اترتی ہی نہیں، اس کی آنکھوں پر پردہ ہے کہ کوئی دلیل اسے دکھائی ہی نہیں دیتی۔ بھلا اب اللہ کے بعد کون انھیں راہ دکھائے۔ کیا تم عبرت حاصل نہیں کرتے۔ یعنی غور و فکر نہیں کرتے تاکہ حقیقت حال تم پر واضح اور آشکارا ہو جائے۔ جیسے سورہ اعراف (۱۸۶) میں فرمایا کہ: ﴿مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِيَ لَهٗ وَ يَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ﴾ ’’جسے اللہ گمراہ رک دے اس کا ہادی کوئی نہیں۔ وہ انھیں چھوڑ دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بکتے رہیں۔‘‘