سورة آل عمران - آیت 142

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا تمہیں یہ خیال ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تو خدا نے ان لوگوں کو ظاہر ہی نہیں کیا جو تم میں جہاد کرنے والے ہیں اور نہ ہی ان کو ظاہر کیا جو صبر کرنے والے ہیں ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جہاد کے ذریعے امتحان: یعنی جنت کے جن اعلیٰ درجات اور مقامات پر اللہ تعالیٰ تمہیں پہنچانا چاہتا ہے، تمہارا کیا خیال ہے کہ بس یوں ہی بیٹھے بٹھائے آرام سے وہاں پہنچ جاؤ گے۔ جنت کے بلند درجات پر وہی لوگ فائز ہونگے جو اللہ کی راہ میں ہر طرح کی سختیاں جھیلنے اور قربانیاں پیش کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے دیکھنے یا جاننے سے وہی مراد ہے جو سابقہ آیت میں مذکور ہے۔ یعنی (وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآءِ) کہ ’’ان میں سے بعض کو شہادت کے درجہ پر فائز کرے۔‘‘ اور مسلمانوں کی پوری جماعت یہ صورت حال اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ خباب بن ارت کی پریشانی: آپ مصائب سے گھبرا کر رسول اللہ کے پاس آئے اس وقت رسول اللہ کعبہ کے سایہ میں چادر پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ انھوں نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ان مشرکوں کے لیے بد دعا کیوں نہیں کرتے یہ سنتے ہی آپ تکیہ چھوڑ کر سیدھے بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اور فرمایا ’’تم سے پہلے ایسے لوگ گزرچکے ہیں جن کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں مگر وہ اپنے سچے دین سے پھرتے نہیں تھے۔ آرا ان کے سر کے درمیان رکھ کر چلادیا جاتا اور ان کے دو ٹکڑے کردیے جاتے مگر وہ اپنے سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور اللہ ایک دن اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو۔ (بخاری:۳۶۱۲) رسول اللہ نے سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو صبر و استقلال اور ثابت قدمی کا وہی سبق سکھایا جو اس آیت میں مسلمانوں کو سکھایا جارہا ہے۔