سورة آل عمران - آیت 140

إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اگر تم نے (جنگ احد میں) زخم کھایا تو وہ قوم (کفار مکہ) بھی ایسا ہی زخم کھا چکی ہے (جنگ بدر میں) اور یہ ایام ہیں جن کو ہم آدمیوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں (ف ٢) اس لئے کہ خدا کو ایمان دار لوگ معلوم ہوجائیں اور اس لئے کہ بعض کو تم میں سے گواہ پکڑے اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں شکستہ دل مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی جارہی ہے کہ جنگ بدر میں کافروں کو اس سے زیادہ صدمہ پہنچا تھا، اس وقت ان کے ستر سردار قتل ہوئے تو ستر گرفتار بھی ہوئے تھے۔ جبکہ غزوہ اُحد میں ستر مسلمان شہید ہوگئے اور اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کا ایک بھی آدمی گرفتار نہ ہوا۔ جبکہ بالآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اور قریش مکہ کو پسپا ہونا پڑا۔ غزوہ احد میں وقتی شکست کی حکمتیں: (۱)خوشی اور غمی، فتح و شکست، کامرانی و ناکامی، خوشحالی و تنگدستی ایسی چیزیں ہیں جو لوگوں کو پیش آتی رہتی ہیں۔ مسلمانوں کو وقتی شکست پر بد دل ہونے اور غمزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں، کافروں کی طرف دیکھو جو میدان بدر میں بُری طرح مار کھانے کے باوجود نئے عزم کے ساتھ باطل کی حمایت میں لڑنے آگئے ہیں۔ (۲) سچے مومنوں اور منافقوں میں امتیاز ہوجائے جسے تم لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ (۳) لوگوں میں سے کچھ کو شہادت کا درجہ نصیب ہو۔