فَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
سو جو تمہیں کچھ شئے ملی ہے سو حیات دنیا کی بہرہ مندی ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ ایمانداروں اور ان کے لئے جو اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں بہتر اور پائیدار ہے
یعنی دنیا میں جتنا بھی مال و دولت اور سامان عیش و عشرت کسی کو مل جائے اس سے وہ زیادہ سے زیادہ اپنی موت تک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بالآخر اسے خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ اس لیے کسی کو اس پر اترانا نہیں چاہیے بلکہ آخرت کی طرف رغبت کرنی چاہیے۔ نیک اعمال کر کے ثواب جمع کرنا چاہیے۔ آخرت میں ایمان داروں کو جو سامان عیش و عشرت ملے گا وہ سامان بھی فانی اور لازوال ہو گا۔ اور ایمان دار لوگ ان اشیا سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انھیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ لہٰذا عقلمند انسان وہ ہے جو ناپائیدار اور فنا ہونے والے سامان کی بجائے دائمی اور پائیدار زندگی اور اس کے سامان کی فکر کرے۔ اللہ پر توکل: یعنی جب ظاہری اسباب مفقود نظر آ رہے ہوں حالات مایوس کن ہوں اس حال میں بھی مومن شکستہ دل نہیں ہوتے بلکہ اس حال میں بھی وہ اللہ کے وعدہ پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ضرور اس مشکل سے نکالنے کی کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ان کے پاس ظاہری اسباب موجود ہوں یا مفقود، تھوڑے ہوں یا زیادہ مومن آدمی ان اسباب کو فراہم کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے مگر اس کا ان اسباب پر تکیہ نہیں ہوتا۔ تکیہ اللہ ہی کی ذات پر ہوتا ہے۔ گویا توکل مومن کی نہایت اہم صفت ہے۔ نیز توکل کے معنی ہرگز یہ نہیں کہ بس انسان اللہ پر توکل کر کے بیٹھ جائے اور ظاہری اسباب کی فکر ہی چھوڑ دے۔ بلکہ یہ حکم ہے کہ حتی الامکان ظاہری اسباب مہیا کرے اور اپنی مقدور بھر کوشش بھی کرے پھر اس کے انجام کو اللہ کے سپرد کر دے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توکل کی تعریف یوں فرمائی کہ پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھ پھر توکل کر (طبرانی الموافقات للشاطبی، ج ۱ ص ۲۹۰) اور کسی شاعر نے اس مفہوم کویوں ادا کیا ہے: توکل اس کو کہتے ہیں کہ خنجر تیز رکھ اپنا پھر اس خنجر کی تیزی کو حوالے کر مقدر کے