إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ
ہم اپنے رسولوں کی اور مومنین کی حیات دنیا اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے مدد کرتے ہیں
رسولوں اور اہل ایمان کو دنیا اور آخرت میں مدد کی بشارت: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی مدد کا وعدہ کیا ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض رسولوں کو ان کی قوموں نے قتل کر دیا۔ جیسے حضرت یحییٰ، حضرت زکریا، حضرت شعیب علیہ السلام، اور بعض انبیا کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف ہجرت کرائی۔ پھر وعدہ امداد کے باوجود ایسا کیوں ہوا۔ دراصل یہ وعدہ غالب حالات اور اکثریت کے اعتبار سے ہے۔ اس لیے بعض دفعہ اللہ کی حکمت و مشیئت کے تحت کافروں کو غلبہ عطا فرما دیا جاتا ہے۔ لیکن بالآخر اہل ایمان ہی غالب اور سرخ رو ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت یحییٰ و زکریا علہما السلام کے قاتلین پر بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو مسلط فرما دیا۔ جنہوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی۔ اور انہیں ذلیل و خوار کیا۔ جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے کر مارنا چاہا، اللہ نے ان یہودیوں پر رومیوں کو ایسا غلبہ دیا کہ انہوں نے یہودیوں کو خوب ذلت کا مزہ چکھایا۔ پیغمبر اسلام اور ان کے رفقا یقیناً ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن اس کے بعد جنگ بدر، جنگ احد و احزاب، غزوہ خیبر اور پھر فتح مکہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی اور اپنے پیغمبر اور اہل ایمان کو جس طرح غلبہ عطا فرمایا۔ اس کے بعد اللہ کی مدد کرنے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟ (ابن کثیر) ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوہریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا ہے جو شخص میرے ولیوں سے دشمنی کرے، اس نے مجھے لڑائی کے لیے طلب کیا۔ (بخاری: ۶۵۰۲) اس دن گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے: قیامت والے دن فرشتے اور انبیا علیہم السلام گواہی دیں گے یا فرشتے اس بات کی گواہی دیں گے کہ یا اللہ پیغمبروں نے تیرا پیغام پہنچایا تھا لیکن ان اکی امتوں نے ان کی تکذیب کی۔ علاوہ ازیں اُمت محمدیہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گواہی دیں۔ اس لیے قیامت کو کھڑا ہونے کا دن کہا گیا ہے۔ اس دن اہل ایمان کی مدد کرنے کا مطلب ہے ان کو ان کے اچھے اعمال کی جزا دی جائے گی اور انھیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔