سورة غافر - آیت 18

وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ ۚ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور انہیں نزدیک آنے والے دن سے ڈرا جس وقت دل غم میں بھرے ہوئے گلوں کو آپہنچیں گے ۔ ظالموں کا نہ کوئی حمائتی ہوگا نہ شفیق کہ جس کی مانی جائے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

آزفہ قیامت کا ایک نام ہے اس لیے کہ وہ بہت ہی قریب ہے جیسے سورہ نجم میں فرمایا: ﴿اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ﴾ یعنی قریب آنے والی قریب ہو چکی ہے جس کا کھولنے والا بجز اللہ کے کوئی نہیں۔ سورہ قمر (۱) میں فرمایا: ﴿اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ﴾ قیامت قریب آ گئی ہے اور چاند پھٹ گیا۔ سورہ انبیا (۱) میں فریا: ﴿اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ﴾ ’’ لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا ۔ سورہ نحل (۱) میں فرمایا: ﴿اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ﴾ اللہ کا امر آ چکا اس میں جلدی نہ کرو۔ سورہ ملک (۲۷) میں فرمایا: ﴿فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِيْٓـَٔتْ وُجُوْهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا﴾ جب اسے قریب دیکھ لیں گے تو کافروں کے چہرے سیاہ پڑ جائیں گے۔‘‘ غرض اس نزدیکی وجہ سے قیامت کا نام آزفہ ہے۔ اس وقت کلیجے منہ کو آ جائیں گے اور وہ خوف و ہراس ہو گا کہ کسی کا دل ٹھکانے نہ رہے گا۔ سب پر غضب کا سناٹا ہو گا کسی کے منہ سے کوئی بات نہ نکلے گی۔ سب رو رہے ہوں گے حیران و پریشان ہوں گے۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ ان کا آج کوئی دوست اور غم گسار نہ ہو گا جو ان کے کام آئے۔ نہ کوئی سفارشی ہو گا جو ان کی سفارش کے لیے زبان ہلائے۔ بلکہ ہر بھلائی کے اسباب کٹ چکے ہوں گے۔