مَثَلُ مَا يُنفِقُونَ فِي هَٰذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
ان کی مثال جو اس دنیوی زندگی میں (محض نفسانیت کے لئے) خرچ کرتے ہیں ‘ اس ہوا کی مثال ہے جس میں پالا ہے ۔ وہ پہنچی ان کے کھیت پر جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اس نے کھیت نیست وتابود کردیا ، اور خدا نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ اپنی جانوں پر خود ظلم کرتے ہیں (ف ١)
دنیادارالعمل اور آخرت دارالجزاء ہے: اس دنیا میں انسان جو کچھ بوئے گا عالم آخرت میں وہی کاٹے گا دنیا میں بوئی ہوئی کھیتی کے فائدہ مند ہونے کے لیے چند شرائط ہیں۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان، خلوص نیت یعنی وہی ریاکاری نہ ہو۔ جو کیا جائے خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔ اتباع کتاب و سنت یعنی ہر کام یا صدقہ و خیرات جو شریعت کی بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق ہو۔ ان میں سے اگر کوئی چیز بھی مقصود ہوگی تو آخرت میں کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ قیامت والے دن کافروں کے نہ مال کچھ کام آئیں گے نہ اولاد اس کی مثال اس سخت پالے کی سی ہوگی جو ہری بھری کھیتی کو جلاکر خاکستر کردیتا ہے ظالم اس کھیتی کو دیکھ کر خوش ہورہے ہوتے ہیں اور اس سے نفع کی امید رکھے ہوتے ہیں کہ پھر اچانک ان کی اُمید خاک میں مل جاتی ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جب تک ایمان نہیں ہوگا رفاہی کاموں پر خرچ کرنے والوں کی دنیا میں چاہے کتنی ہی شہرت ہوجائے، آخرت میں انھیں ان کاموں کا صلہ نہیں ملے گا، وہاں تو ان کے لیے جہنم کا دائمی عذاب ہے۔