سورة الزمر - آیت 10

قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ اسے میرے ایماندار بندو اپنے رب سے ڈرو ۔ جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ہے ان کے لئے (ہی) نیکی ہے اور اللہ کی زمین چوڑی ہے ۔ صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر بےحساب (ف 1) ملتا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ اپنے ایمان دار بندوں کو اپنے رب کی اطاعت پر جمے رہنے کا اور امر میں اس کی پاک ذات کا خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ اور یہ تقویٰ کے فوائد ہیں، نیک بدلے سے مراد جنت اور اس کی ابدی نعمتیں ہیں۔ یعنی جس نے اس دنیا میں نیکی کی اس کو اس دنیا میں اور آنے والی آخرت دونوں میں نیکی ہی نیکی ملے گی۔ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے: یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اگر اپنے وطن میں ایمان و تقویٰ پر عمل مشکل ہو تو وہاں رہنا پسندیدہ نہیں بلکہ وہاں سے ہجرت اختیار کر کے ایسے علاقہ میں چلے جانا چاہیے جہاں انسان احکام الٰہی کے مطابق زندگی گزار سکے۔ اور جہاں ایمان و تقویٰ کی راہ میں رکاوٹ نہ ہو۔ صابرین کا اجر: چوں کہ ایمان و تقویٰ کی راہ میں مشکلات ناگزیر ہیں جس کے لیے صبر کی ضرورت ہے اس لیے صابرین کی فضیلت بھی بیان کر دی گئی ہے۔ کہ ان کو ان کے صبر کے بدلے میں اس طرح پورا پورا اجر دیا جائے گا کہ اسے حساب کے پیمانوں سے ناپنا ممکن ہی نہیں ہو گا۔ کیوں کہ جس چیز کا حساب ممکن ہو اس کی ایک حد تو ہوتی ہے اور جس کی کوئی حد اور انتہا نہ ہو وہ وہی ہے جس کو شمار کرنا ممکن نہ ہو۔ صبر کی یہ وہ عظیم فضیلت ہے جو ہر مسلمان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔