سورة الزمر - آیت 8

وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب آدمی کو رنج پہنچے تو اپنے رب کو اسی کی طرف رجوع ہوکر پکارتا ہے ۔ پھر جب وہ اسے اپنی طرف سے نعمت بخشتا ہے تو جس مطلب کی طرف پہلے اسے پکارتا تھا ۔ اس مطلب کو بھول جانا ہے ۔ اور اللہ کے لئے شریک ٹھہراتا ہے تاکہ اس کی راہ سے اوروں کو بھی بہکائے تو کہہ تھوڑے دنوں اپنے کفر کے ساتھ فائدہ اٹھالے (اخیر) تو تو دوزخی ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو دیکھو کہ اپنی حاجت کے وقت تو بہت ہی عاجزی اور انکساری سے اللہ کو پکارتا ہے اور اس سے فریاد کرتا رہتا ہے جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل (۶۷) میں ہے کہ: ﴿وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ﴾ ’’جب دریا اور سمندر میں ہوتے ہیں اور وہاں کوئی آفت آتی دیکھتے ہیں تو جن جن کو اللہ کے سوا پکارتے تھے سب کو بھول جاتے ہیں اور خالص اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔ لیکن نجات پاتے ہی منہ پھیر لیتے ہیں انسان ہے ہی ناشکرا۔‘‘  یعنی جہاں دکھ درد ٹل گیا تو پھر ایسا ہو جاتا ہے۔ گویا مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔ اس دعا و گریہ زاری کو بالکل فراموش کر جاتا ہے۔ جیسا کہ سورہ یونس (۱۲) میں فرمایا کہ: ﴿وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا﴾ ’’تکلیف کے وقت تو انسان ہمیں اٹھتے بیٹھتے، لیٹتے ہر وقت بڑی حضور قلبی سے پکارتا رہتا ہے لیکن اس تکلیف کے ہٹتے ہی وہ بھی ہم سے ہٹ جاتا ہے گویا اس نے دکھ درد کے وقت ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔ بلکہ عافیت کے وقت اللہ کے ساتھ شریک کرنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ کہ ایسے لوگ اپنے کفر میں گو کچھ یونہی سا فائدہ اٹھا لیں۔ سورہ لقمان (۲۴) میں فرمایا: ﴿نُمَتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ﴾ ہم انھیں کچھ فائدہ دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف لے جا کر بے بس کر دیں گے۔