وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ
اور ان میں کے سردار لوگ یہ کہہ کر چل دیئے ، کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو ۔ بےشک اس بات میں کچھ غرض ہے
شان نزول: ان آیات کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ قریشیوں کے سردار اور رؤسا ایک مرتبہ جمع ہوئے کہ آج چل کر ابوطالب سے اس بات کا آخری فیصلہ کر لیں۔ وہ انصاف کے ساتھ ایک بات ہمارے ذمہ ڈال دے اور ایک اپنے بھتیجے کے ذمے۔ کیوں کہ اب انتہائی عمر کو پہنچ چکے ہیں اگر مر گئے اور ان کےبعد اگر ہم نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کوئی مصیبت پہنچائی تو عرب طعنہ دیں گے کہ بڈھے کی موجودگی تک تو کچھ نہ چلی اور ان کی موت کے بعد بہادری آ گئی۔ چنانچہ ایک آدمی بھیج کر ابو طالب سے اجازت مانگی ان کی اجازت پر سب ان کے گھر گئے اور کہا۔ سنیے جناب! آپ ہمارے سردار ہیں بزرگ ہیں بڑے ہیں ہم آپ کے بھتیجے سے اب بہت تنگ آ گئے ہیں۔ آپ انصاف کے ساتھ ہم میں اور اس میں فیصلہ کر دیجیے۔ دیکھیے ہم انصاف چاہتے ہیں وہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں اور ہمیں نہ ستائیں اور نہ ہم انھیں ستائیں گے وہ مختار ہیں جس چیز کی چاہے عبادت کریں لیکن ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں۔ ابو طالب نے آدمی بھیج کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا۔ اور کہا جان پدر، دیکھتے ہو آپ کی قوم کے سردار بزرگ سب جمع ہوئے ہیں۔ اور آپ سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودوں کی توہین اور برائی کرنے سے باز آ جائیں۔ اور یہ آپ کو اپنے دین پر چلنے کی آزادی دے رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا جان کیا میں ان کو ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر وہ اسے مان لیں تو سارا عرب ان کے تابع فرمان ہو جائے اور عجم پر ان کی بادشاہت قائم ہو جائے اور وہ انھیں جزیہ ادا کریں۔‘‘ یہ سن کر ابو جہل ملعون کہنے لگا۔ تمہارے باپ کی قسم ’’ایسی ایک بات کیا دس باتیں بھی پیش کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’ تم لوگ لا الٰہ الا اللہ کہو اور اللہ کے سوا جن جن کو پوجتے ہو انھیں چھوڑ دو۔‘‘ اس بات پر ان سب نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر کہا! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا! یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔‘‘ پھر آپس میں کہنے لگے اُٹھو یہاں سے اور اپنے آبا کے دین پر ڈٹ جاؤ۔ یہ شخص تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہ ہو گا۔ اسی موقعہ پر اس سورت (ص) کی ابتدائی سات آیات نازل ہوئی۔ (ترمذی: ۳۲۳۲، ابن ہشام: ۱-۴۱۷ تا ۴۱۹، مسند احمد: ۱/ ۲۲۷)