وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ
اور کہا کہ ہم مال واولاد میں زیادہ ہیں اور ہم پر آفت نہیں آئے گی
خوشحال لوگوں کو آخرت کے بارے میں نظریہ: یعنی جب اللہ نے ہمیں دنیا میں مال و اولاد کی کثرت سے نوازا ہے۔ تو قیامت اگر برپا بھی ہوئی تو ہمیں عذاب نہیں ہو گا گویا انھوں نے دار آخرت کو بھی دنیا پر قیاس کیا کہ جس طرح دنیا میں کافر و مومن سب کو اللہ کی نعمتیں مل رہی ہیں۔ آخرت میں بھی اسی طرح ہو گا حالانکہ آخرت تو دارالجزا ہے۔ وہاں تو دنیا میں کیے گئے عملوں کی جزا ملنی ہے۔ اچھے عملوں کی جزا اچھی اور برے عملوں کی بری جب کہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ بطور آزمائش سب کو دنیاوی نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے۔ یا انھوں نے دنیاوی مال و اسباب کی فراوانی کو رضائے الٰہی کا مظہر سمجھا۔ حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبردار بندوں کو سب سے زیادہ مال و اولاد سے نوازتا۔ (احسن البیان)