قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
تو کہہ آسمانوں اور زمین میں سے تمہیں رزق کون دیتا ہے ؟ تو کہہ کہ اللہ اور یا ہم تم البتہ ہدایت پر ہیں یا صریح گمراہی میں (آخر کوئی تو سچاہے ذرا سوچو)
یعنی یہ بات تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش مکہ میں مسلم تھی کہ رزق دینے والا اللہ ہی ہے۔ اب انسانوں کے لیے لازم تو یہی ہے کہ عبادت بھی اسی کی کی جانی چاہیے۔ جو کھانے کو دیتا ہے اور دیتا رہتا ہے۔ پھر دوسرے معبودوں کو، جن کا رزق یا پیدائش یا تقسیم میں کوئی حصہ نہیں ہے، کس خوشی میں پوجا جائے۔ بنیاد تو دونوں کی ایک ہی ہے کہ اللہ رازق ہے۔ پھر آگے دو راہیں بن گئیں۔ ایک ہم ہیں جو کہتے ہیں کہ گن اسی کے گاؤ جو کھانے کو دیتا ہے اور ایک تم ہو کہ رزق دینے والے کو چھوڑ کر دوسروں کے گن گا رہے ہو۔ یا اللہ کی عبادت میں بلاوجہ شریک کر رہے ہو۔ اب ظاہر ہے کہ ہم دونوں فریقوں میں سے ایک ہی حق پر ہو سکتا ہے۔ اور تم خود ہی سوچ لو کہ حق پر کون ہو سکتا ہے اور گمراہی پر کون؟ (تیسیر القرآن)