سورة الأحزاب - آیت 57

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچاتے ہیں اللہ نے دنیا اور آخرت میں ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے رسوائی کا عذاب تیار کیا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا کی صورتیں: پہلی صورت شرک ہے کہ اس کی ذات و صفات میں دوسروں کو شریک بنا لیا جائے چنانچہ ایک حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آدم کا بیٹا مجھے سخت ایذا پہنچاتا ہے۔ جب کہتا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ زمانے کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں۔ اس کے رات اور دن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔ (بخاری: ۷۴۹۱، مسلم: ۲۲۴۶) یعنی میں ہی دن رات کا تغیر و تبدل کر رہا ہوں۔ مطلب یہ کہ جاہلیت والے کہا کرتے تھے ہائے زمانے کی ہلاکی، اس نے ہمارے ساتھ یہ کیا، اور یوں کیا۔ پس اللہ کے افعال کو زمانے کی طرف منسوب کر کے پھر زمانے کو برا کہتے تو گویا افعال کے فاعل یعنی خود اللہ کو برا کہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر، کذاب، ساحر وغیرہ کہنا۔ بعض احادیث میں صحابہ کرام کو ایذا پہنچانے اور ان کی اہانت کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایذا قرار دیا ہے۔ پھر آخر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ذلت و رسوائی کا عذاب کیوں نہ دے گا۔ (تیسیر القرآن)