لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا
اس کے بعد تیرے لئے عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہ حلال ہے کہ ان کے بدلے اور بیویاں کرلے ۔ اگرچہ تجھے ۔ اس کا حسن پسند بھی آئے ۔ مگر جو تیرے ہاتھ کا مال ہو اور اللہ ہر شئے پرنگہبان ہے
اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ آپ کو جن چار قسم کی بیویوں سے نکاح کر لینے کی اجازت دی جا چکی ہے۔ ان کے علاوہ دوسری عورتیں آپ پر حلال نہیں بس یہی کافی ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اس بات پر آمادہ ہو گئی ہیں کہ جو روکھا سوکھا ملے اس بات پر وہ صابر شاکر رہیں اور باری کا مطالبہ کر کے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان نہ کریں، نہ اسے وجہ نزاع بنائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ ان صابر و شاکر بیویوں میں سے کسی کو طلاق دے دیں اور اس کی جگہ کوئی اور لے آئیں۔ خواہ وہ خوبصورت ہی کیوں نہ ہو، اب آپ کو بھی انھیں بیویوں پر صابر و شاکر رہنا ہو گا۔ کنیزوں کی رخصت کا غلط استعمال: یعنی کنیزوں کی تعداد پر شریعت نے کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ کیونکہ ان کا انحصار کسی جنگ میں قیدی عورتوں پر منحصر ہوتا ہے اور یہ مستقبل کے حالات ہیں جو کبھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ لیکن اس اجازت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ نواب اور امیر کبیر حضرات عیش و عشرت کے لیے جتنی کنیزیں چاہیں خرید کر اپنے گھروں کے اندر ڈالتے جائیں۔ یہ اس اجازت کا غلط استعمال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنزیں صرف دو تھیں ایک ماریہ قبطیہ جن کے بطن سے سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تھے اور دوسری ریحانہ ( رضی اللہ عنہا ) ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اور عورتیں بھی حلال کر دی تھیں۔ (ترمذی: ۳۲۱۶، ابن حبان: ۶۲۶۶)