يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی ہم نے تیرے لئے تیری وہ عورتیں حلال کردی ہیں جن کا مہر تو دے چکا ہے اور وہ (لونڈیاں بھی) جو تیرے ہاتھ کا مال ہے جو خدائے تیرے ہاتھ کا مال ہے جو خدا نے تیرے ہاتھ لگوا دیا ہے ۔ اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور مومن عورت (بھی حلال ہے) اگر اپنی جان نبی کو بخش دے (ف 2) (یعنی بن مہر نکاح میں آنا چاہے) اگر نبی بھی اس کو نکاح میں لینا چاہے (توجائز ہے) یہ خاص تیرے ہی لئے ہے سوا اور ایمانداروں کے ہمیں معلوم ہے جو ہم نے ان پران کی بیویوں اور ان کے ہاتھ کے مال (لونڈیوں) کے حق میں فرض کیا ہے تاکہ تیرے اوپر تنگی نہ رہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
آپ کو چار سے زائد بیویوں کی خصوصی اجازت اور اس کی وجہ : یہ دراصل ایک اعتراض کا جواب ہے۔ سیدنا زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے نکاح کیا تھا، یا جن کا نکاح سات آسمانوں پر ہوا تھا آپ کی پانچویں بیویں تھیں۔ اس سے پہلے چار بیویاں سیدہ عائشہ بنت ابی بکر، سیدہ سودہ بنت زمعہ، سیدہ حفصہ بنت عمر اور سیدہ ام سلمی رضی اللہ عنہن موجود تھیں۔ اور عام مومنوں کے لیے چار بیویوں سے زائد کا جواز نہیں تھا۔ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس عام قاعدہ سے مستثنیٰ کر دیا۔ اور وضاحت فرما دی کہ عام مومنوں کے لیے چار تک بیویوں کے جواز کا قانون بھی ہمارا قانون ہے۔ اور نبی سے ہم جو کچھ کام لینا چاہتے ہیں اور جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں اس کی بنا پر ہم ہی نبی کے لیے اس عام قانون سے استثنا کرنے والے ہیں، نیز اس آیت کی رو سے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید بھی تین قسم کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت فرما دی۔ (۱)وہ عورتیں جو مال غنیمت کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آئیں۔ (۲)آپ کے چچاؤں، پھوپھیوں، ماموؤں، خالاؤں کی بیٹیاں جو ہجرت کر کے مدینہ آ چکی ہوں۔ (۳)وہ عورتیں جو ازخود اپنے آپ کو آپ سے نکاح کے لیے پیش کریں اور اگر اپنا نفس ہبہ کرنے والی کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آ جائے تو اس کا حق مہر کچھ نہیں ہو گا، نہ گواہوں کی ضرورت ہو گی، اور نہ اس عورت کے ولی کی رضا کی بس عورت کا اپنا نفس ہبہ کر دینا نکاح سمجھا جائے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا تبصرہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے ان عورتوں پر غیرت آتی تھی جو اپنے تئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دیتی تھیں، میں کہتی، بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ عورت اپنے تئیں بخش دے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری تو میں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا: ’’ میں تو یہ دیکھ رہی ہوں کہ جیسی آپ کی خواش ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پروردگار فوراً ویسا ہی حکم دیتا ہے۔ (بخاری: ۴۷۸۸) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادیاں کن کن اغراض کے تحت کیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ۲۵ سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت خدیجہ اس وقت چالیس سال کی تھیں اور ان کو پہلے دو مرتبہ طلاق ہو چکی تھی۔ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرپچاس سال تھی جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔ یعنی جوانی کا پورا زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی بیوی کے ساتھ گزرا۔ (۱)سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا جو ایک بوڑھی، بھاری بھرکم اور مطلقہ عورت تھیں اس نکاح کا مقصد اولاد کی تربیت تھی۔ (۳، ۴)سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح اس غرض سے کیا کہ یہ شیخین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا و آخرت کے رفیق اور وزیر ہیں۔ اور تعلقات میں مزید محبت و خوشگواری پیدا کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکاح کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری بیویوں میں سے صرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کنواری تھیں۔ باقی سب بیویاں مطلقہ یا بیوہ تھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی ایک ذمہ داری تھی کہ قبائلی، جاہلی نظام اور اس کی عصبیت کو ختم کر کے اسلامی نظام قائم کریں۔ سیدہ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا جو اس خاندان کی بیٹی تھی جس کا تعلق ابوجہل اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے تھا۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ابوسفیان کی بیٹی تھیں۔ ان شادیوں نے بڑی حد تک ان خاندانوں کی دشمنی کا زور توڑ دیا۔ سیدہ صفیہ، سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہما اور ریحانہ یہودی خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ انہیں آزاد کر کے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیے تو یہود کی معاندانہ سرگرمیاں ٹھنڈی پڑ گئیں۔ کیونکہ عرب روایات کے مطابق کسی شخص کا داماد اس شخص کے پورے قبیلے کا داماد سمجھا جاتا تھا۔ سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کا مقصد جاہلانہ رسوم کا قلع قمع بھی تھا۔ پھر ہر خاندان اور ہر عمر کی عورتوں سے نکاح کا ایک اہم مقصد دینی تعلیم بھی تھا۔ شریعت کے احکام کے کئی گوشے ایسے بھی ہیں جو صرف عورتیں ہی عورتوں کو سمجھا سکتی ہیں۔ یا صرف بیویاں ہی اپنے شوہر کے اوصاف و خصائل اور ان کی پرائیویٹ زندگی اُمت کو بتا سکتی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں چند ایک فقیہ بھی تھیں حتیٰ کہ بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ ان سے مسائل پوچھنے آتے تھے۔ یہ تھے وہ مقاصد جن کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تعدد ازواج کی پابندی نہیں لگائی۔ اور فرما دیا کہ ایسے مقاصد کی تکمیل میں آپ پر تعدد ازواج کی پابندی کہیں تنگی اور رکاوٹ کا سبب نہ بن جائے۔ آپ پر حق مہر یا نان و نفقہ واجب نہیں تھا: عام مسلمانوں پر اپنی بیویوں کو حق مہر ادا کرنا بھی واجب ہے۔ اور نان نفقہ کی ادائیگی بھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی بیویوں پر نان نفقہ اس طرح واجب نہیں جس طرح عام مسلمانوں پر ہے۔ بلکہ نبی جو کچھ اور جتنا کچھ اپنی بیویوں کو دے یا دے سکے اس پر انھیں صابر و شاکر رہنا ہو گا جیسا کہ پہلے واقعہ ایلا میں وضاحت سے گزر چکا ہے۔ چچا، پھوپھی، ماموں، خالاؤں کی بیٹیاں جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی ہو: ام ہانی رضی اللہ عنہا (ابو طالب کی بیٹی اور آپ کی چچا زاد بہن) کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نکاح کا پیغام دیا۔ مگر میں نے معذرت کر دی (کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا عذر قبول فرما لیا پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حلا ل بھی نہیں کیوں کہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی اور فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والوں میں سے تھی۔ (ترمذی: ۳۲۱۰، تیسیر القرآن)