يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ فائدہ دوں ۔ تمہیں اچھی طرح سے رخصت کروں
بیویوں کا آپ سے خرچ کا مطالبہ: اموال غنیمت سے جب مسلمانوں میں کچھ آسودگی آ گئی تو ازواج مطہرات نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ زائد اخراجات کا مطالبہ کر دیا۔ حالات کے مطابق ان کا یہ مطالبہ کچھ ایسا نا جائز بھی نہ تھا کیونکہ دوسرے مسلمان سب آسودہ ہو رہے تھے۔ مگر آپ کی فقر پسند طبیعت پر بیویوں کا یہ مطالبہ سخت شاق گزرا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کبیدگی طبع کی بنا پر ایک ماہ کے لیے اپنی بیویوں سے کنارہ کش رہنے کا ارادہ کر لیا۔ سیدنا جابر کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئے۔ اور اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آپ کے پاس آپ کی بیویاں خاموش اور غمگین بیٹھی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ میرے گرد بیٹھی خرچ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک مہینہ کی علیحدگی اختیار کر لی۔ (مسلم: ۱۴۷۸، بخاری: ۲۴۶۸) اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکمل اختیار دیا تھا کہ آپ چاہیں تو ایسی اجتماعی طور پر خرچ کے اضافہ کا مطالبہ کرنے اور اس طرح دباؤ ڈالنے والی بیویوں کو طلاق دے کر فارغ کر دیں اور چاہیں تو اپنے پاس رکھیں۔ بشرطیکہ آیندہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سلسلہ میں پریشان نہ کریں۔ (تیسیر القرآن)