وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارہ میں نصیحت کی ۔ اس کی ماں نے تھک تھک کر اسے پیٹ میں اٹھایا اور اس کا دودھ چھڑانا دو برس میں ہے ، (سوائے انسان تاکید سے) کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر کر ۔ آخر میری ہی طرف لوٹ (ف 1) کر آنا ہے
توحیدوعبادت الٰہی کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکیدفرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اِيَّاهُ وَ بِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا﴾ (بنی اسرائیل: ۲۳) ’’تیرارب یہ فیصلہ کرچکاہے کہ اس کے سواکسی اورکی عبادت نہ کرؤ۔اورماں باپ کے ساتھ اچھاسلوک واحسان کرتے رہو۔‘‘ قرآن کریم میں عموماًان دونوں چیزوں کابیان ایک ساتھ ہے۔یہاں بھی ماں کی شفقت،تکلیف اورضعف وغیرہ کوبیان کیاگیاہے۔یعنی ایک تکلیف توحمل کی ہوتی ہے جسے ماں برداشت کرتی ہے۔پھردوسال تک اسے دودھ پلاتی ہے اوراس کی پرورش میں لگی رہتی ہے۔چنانچہ سورہ بقرہ میں فرمایا۔ ﴿وَ الْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ﴾ (البقرۃ: ۲۳۳) ’’جو لوگ اپنی اولادکوپوراپورادودھ پلاناچاہیں ان کے لیے آخری انتہائی سبب یہ ہے کہ دوسال کامل تک ان بچوں کوان کی مائیں اپنادودھ پلاتی رہیں۔‘‘ یعنی مدتِ حمل اور دودھ چھٹائی کل تیس ماہ ہے۔ماں کی اس تکلیف کواولادکے سامنے اس لیے ظاہرکیاجاتاہے،کہ اولاداپنی ماں کی ان مہربانیوں کویادکرکے شکرگزاری، اطاعت اوراحسان کرے جیسے کہ رب تعالیٰ کافرمان عالیشان ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا﴾ (بنی اسرائیل: ۲۴) ’’ہم سے دعا کرو اور کہو کہ میرے سچے پروردگارمیرے ماں باپ پراس طرح رحم وکرم فرماجس طرح میرے بچپن میں وہ مجھ پرہررحم وکرم کیاکرتے تھے۔‘‘ میرے پاس ہی لوٹ کرآناہے ابن ابی حاتم سے مروی ہے۔ کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر بناکر بھیجا، آپ نے وہاں پہنچ کرسب سے پہلے کھڑے ہوکرخطبہ پڑھا۔جس میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثناکے بعدفرمایا‘میں تمہاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا آیا ہوں اور یہ پیغام لے کرکہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو۔ میری باتیں مانتے رہو۔میں تمہاری خیرخواہی میں کوتاہی نہ کروں گا۔سب کولوٹ کراللہ کی طرف جاناہے۔پھریاتوجنت مکان بنے گی یاجہنم ٹھکانہ ہوگاپھروہاں سے نہ نکلناہوگانہ موت آئے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام کیا ہے۔ (بخاری: ۵۹۷۵) اور ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھے جانے پر ماں کے تین حقوق بنائے ہیں۔ (بخاری: ۵۹۷۱، مسلم: ۵۹۷۵)