بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ
بلکہ یہ قرآن تو کھلی آیتیں ہیں ان کے سینوں میں جنہیں علم دیا گیا ہے ۔ اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو ظالم (ف 3) ہیں
اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک مطلب تو یہ ہوگاکہ قرآن کی آیات واضح دلائل پر مشتمل ہیں اور یہ آیات اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں اور یہ قرآن اسی طرح سینہ بہ سینہ اہل علم میں منتقل ہوتا جائے گا اور یہ قرآن کی ایسی ناقابل تردیدحقیقت اور صفت ہے جو ابتدائے اسلام سے تا قیامت ہر شخص مشاہد ہ کرسکتاہے اور کرتا رہے گا ۔ ہر دور میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد حافظ قرآن رہی ہے اور یہی قرآن کی اعجازی حیثیت اور اس کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہل علم او راہل دانش و بینش کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ثبوت میں بہت سی نشانیاں موجود ہیں ۔ دنیا میں جتنے بھی نامور شخص گزرے ہیں ان کی شخصیت بنانے والے عوامل کاتاریخ سے پتہ لگایاجاسکتاہے مگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت جن حیرت انگیز کمالات کی مظہر تھی ان کاکوئی ماخذ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماحول میں تلاش نہیں کیاجاسکتا۔تمام مخالفین اسلام اورقریش مکہ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھناپڑھنانہیں جانتے تھے علم وادب عربی سے یاتاریخ امم سے واقف ہوناتودورکی بات ہے۔لیکن آپ نے جوکلام پیش کیا،باربارکے چیلنج کے باوجودعرب بھرکے فصحاء اوربلغاء اس جیساکلام پیش کرنے سے عاجررہ گئے دوسری مثال یہ ہے کہ فن حرب وضرب سے قطعاً نا بلد تھے۔ لیکن جب میدان جنگ میں فوجی لشکرکی قیادت سنبھالی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی جنگی تدابیراختیارکیں کہ تمام جہانوں کے جرنیلوں کو پیچھے چھوڑدیا۔غرض کہ آپe کی زندگی ایسے حیران کن کمالات کامجموعہ ہے جن کے عوامل واسباب تلاش کرنے لگیں تو دور تک نظرنہیں آتے یہی وہ واضح نشانیاں ہیں جن کاانکارکوئی کٹرمتعصب ہی کرسکتاہے۔جب کہ اہل علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان خوبیوں کے دل وجان سے معترف ہوتے ہیں۔